الأحد، 17 يوليو 2016

کوکن تحریری مناظرہ بعنوان : موت رسول ﷺ (تیسری اور آخری قسط)


























کوکن تحریری مناظرہ بعنوان : موت رسول ﷺ   (تیسری اور آخری قسط)
بریلوی موقف
ان کی تحریر کا عکس دیکھ لیا جائے۔
سلفی موقف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره  ِ ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئآت أعمالنا , من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له, أما بعد:
محترم ! آپ  کی طرف سے ہمارے مراسلے کا تنقیدی جائزہ موصول ہوا۔ آپ کی طلب اور خواہش کے مطابق نمبروار آپ کے سوالات کے جوابات دینے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ کچھ اہم ، قابل غور اور قابل توجہ باتیں آپ کے سامنے رکھ دیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ آپ کا مراسلہ نو صفحات میں پھیلا ہوا ہے مگر افسوس ہے کہ اتنی طول کلامی کے باوجود ہمارے سولات کے جوابات نہ دے سکے۔ تشفی بخش جواب دینا تو دور کی بات ہے ، مطلق جواب نہ دے سکے۔ کہیں چپ سادھ لی اور کہیں آنکھیں بند کرلیں ، جیسا کہ آگے اس کی وضاحت آرہی ہے۔
دوسری بات یہ کہ جس طرح آپ نے طوالت سے کام لیا ہے اسی قدر ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھائی ہیں۔ کتاب وسنت کو چھوڑنے اور تقلید کا انجام یہی ہے۔ حنفی مذہب ایک تو ویسے ہی ابعد المذاہب عن السنۃ ہے اور پھر بریلوی مسلک تو  (ظلمات بعضہا فوق بعض ) کا نام ہے۔
تیسری بات یہ کہ آپ نے اتنے طویل مراسلے میں صرف چند آیات کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں بھی غلطیاں کی ہیں اور آپ کو اس کی سنگینی کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ یہ سب کتاب وسنت سے دوری اور اس کے عدم اہتمام اور اس کی محبت وتعظیم میں کمی کا شاخسانہ ہے۔
1)              آپ نے  صفحہ ۲ پر لکھا ہے: آیت قتال (اقتلوالمشرکین حیث وجدتم) جب کہ صحیح آیت اس طرح ہے:  {فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ } [التوبة: 5]
2)              اسی طرح آپ نے صفحہ ۲ پر آیت لکھا ہے : (انما الخمرَ والمیسرَ والانصابَ ۔ ۔ ۔ ۔)  آپ نے خط کشیدہ الفاظ پر زبر لگا رکھا ہے جب کہ قرآن مجید میں اس پر پیش ہے۔ (دیکھئے سورۃ التوبۃ)
3)              صفحہ ۲ پر ہی آپ نے لکھا ہے : (فاینما تَولوَ فثم وجہ اللہ ) جب کہ صحیح اس طرح ہے: {فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ} [البقرة: 115]
4)              صفحہ ۳ پر آپ نے دو سورتوں کی دو آیتوں کو ایک میں جوڑ دیا ہے، نیز غلطی بھی کی ہے۔ آپ نے لکھا ہے: (لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا  وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ)  جب کہ صحیح آیت اس طرح ہے۔ پہلا ٹکڑا سورہ نور آیت ۶۳ میں ہے : {لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا } [النور: 63] دوسرا ٹکڑا سورہ حجرات آیت نمبر ۲ میں ہے: {وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} [الحجرات: 2]
چوتھی بات یہ ہے کہ ،
جناب عالی! قرآن مجید سے آپ کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک آپ کو صحیح طور پر یہ بھی نہیں معلوم کہ قرآن  مجید میں کل کتنی آیتیں ہیں۔
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز                اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا
آپ نے لکھا ہے: «پورے قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھانچھٹ( [1]) (۶۶۶۶) آیات ہیں»۔  کیا واقعی ایسا ہے؟ میں نے تو رضا اکیڈمی سے چھپے ہوئے کنز الایمان کے ذریعہ شمار کیا تو یہ تعداد مکمل نہیں ہوئی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہر سورت کے شروع میں لکھا ہوتا ہے کہ اس میں کتنی آیتیں اور کتنے رکوع ہیں۔ اسی کے ذریعے حساب کرکے دیکھئے، کیا آپ کی بتائی ہوئی تعداد درست ہے؟ ہوسکتا ہے کہ کنزالایمان کا وہ نسخہ جو ادارہ استقامت ریل بازار کانپور کا مطبوعہ ہے اس میں آپ کی ذکر کردہ تعداد کے مطابق آیات موجود ہوں۔
بہرکیف میری شمار کے مطابق قرآن مجید کی کل آیات چھ ہزار دو سو چھتیس (۶۲۳۶) ہیں۔ اس میں ہر سورت کے شروع میں لکھے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شمار نہیں کیا گیا ہے۔ اگر اسے بھی شمار کرلیا جائے تو قرآن مجید میں کل ایک سو چودہ سورتیں ہیں اور ایک سورت (توبہ) کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے ، اس طرح ایک سو تیرہ آیات کا اضافہ ہوجائے گا اور کل تعداد چھ ہزار تین سو انچاس(۶۳۴۹) بنے گی۔  یعنی آپ کی بتائی ہوئی تعداد سے تین سو سترہ (۳۱۷) آیات کم ، اور اگر سورتوں کے شروع میں لکھے ہوئے بسم اللہ کو شمار نہ کیا جائے تو یہ تعداد بڑھ کر چار سو تیس (۴۳۰) ہوجائے گی۔
بتائیے کہ یہ آیات کہاں گم ہوگئیں؟ اہل سنت کا عقیدہ تو یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی حفاظت میں ہے چنانچہ کسی بھی قسم کی تحریف وتبدیلی اور کمی وبیشی سے پاک ہے اور آج بھی بالکل اسی طرح محفوظ ہے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا، البتہ روافض جو اپنے آپ کو شیعہ کہتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ نعوذ باللہ قرآن محفوظ نہیں ہے۔  کہیں ایسا تو نہیں کہ بریلویت پر شیعیت کے جو بہت سارے اثرات ہیں  انھیں میں سے ایک یہ بھی ہو۔ جناب عبد الودود صدیقی صاحب کی تازہ تالیف  «بریلویت پر شیعیت کے گہرے سائے »کا مطالعہ فرمائیے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ میں نے پچھلے مراسلے میں آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے لکھا ہے کہ«  اللہ تعالی کے قول سے دلیل دینا (معاذ اللہ) اپنے کو خالق ومالک کے برابر کرنا ہے جو کفر در کفر ہے»۔ اس اصول کو آپ کہاں سے لائے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے چپ سادھ لی ہے۔ نو صفحے کی نہایت طویل، گراں بار اور دور ازکار بحث وکٹ حجتی میں ایک بھی جملہ ایسا نہیں ہے جس کو اس سوال کا جواب کہا جاسکے۔ پچھلے مراسلے میں نمبر دو میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اسے ایک بار پھر پڑھئے اور سچ سچ بتائیے کہ کیا آپ نے اس کی ایک سطر کا بھی جواب دیا ہے؟ ؟
پچھلے مراسلہ کو تلاش کرنے کی زحمت نہ ہو اس لئے دوبارہ اسے یہاں میں نوٹ کردیتا ہوں:
((۲۔ آنجناب فرماتے ہیں:" اللہ تعالی کے قول سے دلیل دینا  (معاذ اللہ)  اپنے کو خالق ومالک سے برابر کرنا ہے  جو کفر درکفر ہے"۔
افسوس   ؏        ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے           خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
اگر اللہ کے قول سے دلیل دینا کفر ہے (معاذ اللہ) تو  پھر بھلا کس کے قول سے دلیل دینا کفر نہیں ہے؟  اللہ کے قول سے دلیل دینے میں اللہ کی برابری ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے دلیل دینے میں نبی ورسول کی برابری ہوگی  اور اس طرح بڑی آسانی سے آپ نے قرآن وحدیث اور کتاب وسنت پر ہاتھ صاف کردیا۔  اور جب یہ دونوں چیزیں دلیل نہ ہوں گی تو پھر ہرقسم کی من مانی کی پوری چھوٹ ہوگی۔ آپ کا معاملہ تو بالکل شاعر کے اس قول کی طرح ہے ؏      
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ      کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
شاید اسی غلط فہمی کی وجہ سے تین صفحی مراسلہ میں کہیں بھی آپ نے اللہ تعالی کے کسی قول کو دلیل نہیں بنایا ہے۔ ہاں! آپ نے تیسرے صفحہ میں پوری آیت تو نہیں البتہ ایک ٹکڑا  (إِنَّكَ مَيِّتٌ)ذکر فرمایا ہے اور وہ بھی بطور دلیل نہیں بلکہ برائے تاویل۔
البتہ حیات شہداء سے متعلق آیت کے مفہوم سے آپ نے حیات انبیاء پر استدلال کیا ہے ، شاید آپ کے نزدیک قرآن کے لفظ اور منطوق سے استدلال کفر ہو البتہ اس کے مفہوم سے استدلال کفر نہ ہو بلکہ جائز اور درست ہو؏  بریں عقل ودانش بباید گریست
ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے تدبر وتفکر کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے غور کیجئے کہ آپ کے اس فاضلانہ قاعدہ کی زد میں کون کون آتے ہیں۔ اگر مراسلہ کی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ان واقعات کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے رکھ دیتا جس میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے قول سے دلیل دیا ہے، اسی طرح آپ کے خلفائے راشدین ، عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کیا ہے، نیز تابعین وتبع تابعین، ائمہ اربعہ ودیگر مجتہدین اور محدثین نے بھی ہزاروں مسائل میں اللہ اور اللہ کے رسول کے قول سے دلیل دیا ہے۔  آپ کے فاضلانہ قاعدہ کی رو سے تمام لوگ (معاذ اللہ) نہ صرف کفر بلکہ کفر درکفر کے مرتکب ہوچکے ہیں ؏ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
بھلا بتائیے کہ اللہ کا قول اگر دلیل نہیں تو قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا فائدہ کیا ہے؟ کنزالایمان کی صورت میں اس کے ترجمہ کی ضرورت کیا تھی؟
حقیقت یہ ہے کہ کتاب وسنت سے اعراض منافقین کا طریقہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:  {وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا } [النساء: 61] اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: {وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (48) وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ (49) أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [النور: 48 - 50] اور جب بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے، (48) اور اگر ان میں ڈگری ہو (ان کے حق میں فیصلہ ہو) تو اس کی طرف آئیں مانتے ہوئے (49) کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا شک رکھتے ہیں کیا یہ ڈرتے ہیں کہ اللہ و رسول ان پر ظلم کریں گے بلکہ خود ہی ظالم ہیں۔
اس کے برخلاف اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی بات پر فوراً کان لگاتے ہیں اور اطاعت بجا لاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :  {إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } [النور: 51] مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔))
چھٹی بات یہ ہے کہ :
نمبر دو اور نمبر تین میں جو کچھ آپ نے مشقت فرمائی ہے وہ دراصل میری طرف سے نمبر تین میں اٹھائے گئے اس سوال کہ «وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے ذریعہ کسی آیت یا حدیث کے قابل استدلال یا ناقابل استدلال ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ » کا کسی قدر جواب ہے مگر مغالطہ انگیزیوں سے بھرپور ہے ۔ آگے ترتیب وار جائزہ میں اس کی وضاحت آرہی ہے۔
ساتویں بات یہ ہے کہ علمی بحث میں جس متانت وسنجیدگی اور باہمی احترام وخیرخواہی اور جذبۂ حق پسندی کی ضرورت ہوتی ہےوہ مفقود دکھائی دیتی ہے۔ امانت ودیانت کے تعلق سے تو میں نے پچھلے مراسلہ میں بھی اشارہ کیا تھا۔ ذرا  آپ اپنے ان جملوں کو ٹھنڈے دل ودماغ سے دہرا کر دیکھیں کیا یہ علمی بحث میں آنے کے لائق ہیں:
1)  پہلے اپنے ہوش کی دوا کیجئے۔
2)  «فاضل»  مدنی کے ٹائیٹل میں جاہل مطلق چھپا ہوا تھا۔
3)  تو اسے بیقوف([2]) کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
4)  اب تو آپ کے ہوش ٹھکانے لگ گئے ہوں گے۔
5)  آج سے فاضل مدنی کا ٹائیٹل نکال دیں۔
6)  ایسے جاندار مردے کل کے منافقین تھے اور موجودہ دور کے غیر مقلدین ۔
وغیرہ
آٹھویں بات یہ ہے کہ عربی زبان تو جانے دیجئے ابھی آپ کو قاعدہ کی اردو زبان بھی نہیں آتی مثلاً (۱) بظاہراً (۲) نوک وپلک (۳) بیقوف (۴) چھانچھٹ وغیرہ کون سی زبان ہے۔
چند صفحی مراسلہ میں اردو زبان کی اتنی غلطیاں؟؟ یہ تو صرف «مشتے نمونہ از خروارے» کے بطور پیش ہیں۔ یہ الفاظ شاید کسی بریلوی لغت میں پائے جاتے ہوں گے۔
نویں بات یہ ہے کہ ان ساری غلطیوں ، خامیوں، کوتاہیوں اور جہالتوں کے باوجود جس کو اس مراسلہ میں ظاہر کیا گیا ہے رعونت کا یہ عالم  ہے کہ اللہ کی پناہ!
1)  فرماتے ہیں:  «اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی » دیکھئے  صفحہ (۱) اور (۳)
2)  فرماتے ہیں: «فاضل مدنی کو اگر معلوم نہ ہو تو آئیے ہم بتاتے ہیں»۔ دیکھئے  صفحہ (۱)
3)  فرماتے ہیں:  «اگر آپ نہ بتلاسکو تو ہم سے سنو»۔ دیکھئے  صفحہ (۶)
4)  فرماتے ہیں:  «ہم جیسے مومنین»۔ دیکھئے  صفحہ (۷)۔   (اپنے منہ میاں مٹھو)۔
دسویں  بات یہ ہے کہ اختصار کی شدید خواہش کے باوجود مراسلہ طویل ہوگیا ہےکیونکہ الجھانا اور مغالطہ دینا آسانی کے ساتھ کم وقت میں ہوجاتا ہے مگر سلجھانا اور مغالطوں کی گرہیں کھولنا مشقت طلب بھی ہوتا ہے اور وقت طلب بھی۔ اسی اختصار کے پیش نظر کم دلائل، کم حوالوں اور کم مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ان شاء اللہ کہیں تشنگی محسوس نہیں ہوگی اور یہ آپ کی تشفی کے لئے بہت کافی ہے۔
آئیے اب آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے مراسلہ کا ترتیب وار جائزہ پیش ہے۔
1)              الاول :- سورۂ مریم آیت نمبر  ۱۵  « وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا»  کے ترجمہ کے سلسلے میں آپ نے تسلیم کرلیا کہ وہ مترجم کی نہیں بلکہ مطبع کی غلطی تھی لہٰذا آپ اپنے مطابع اور کتب خانوں کو ایک تنبیہی خط لکھ دیجئے کہ قرآن مجید کے ترجمہ کے سلسلہ میں ایسی لاپرواہی اور غیرذمہ دارانہ حرکت سے باز رہیں تاکہ آپ لوگوں کو اس کی تصحیح وتاویل کے لئے بے جا مشقت نہ اٹھانی پڑے اور نہ ہی کسی کو الزام دینے کے بعد پھر اس میں کمی کرکے شرمندگی وندامت سے دوچار ہونا پڑے۔
الثانی:- ترجمہ کی غلطی کا ایک بار اعتراف کرلینے کے بعد اس کی تصحیح کے لئے بے جا ہاتھ پیر نہ ماریئے ۔ غلط کسی کے بھی صحیح کہہ دینے سے صحیح نہیں ہوجائے گا بلکہ وہ غلط ہی رہے گا۔
الثالث:- آپ تو ایک طرف یہ فرماتے ہیں کہ«  کوئی غیر اعلی حضرت کے ترجمہ کا ٹھیکیدار نہیں»   اور پھر ٹھیکیداری کا فریضہ بھی نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔  اور اسی ترجمہ کو جسے ایک بار آپ مطبع کی غلطی کہہ چکے ہیں دوبارہ صحیح ہی نہیں بلکہ زیادہ فصیح ثابت کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں اور ایسے ایسے گل کھلاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
الرابع:- اسی کو کہتے ہیں : الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ ابھی تو آپ الثالث میں پورا علم النحو پڑھا رہے تھے اور ضمیر اور اس کا مرجع اور نائب فاعل اور دنیا بھر کی اصطلاحات سے مرعوب کررہے تھے ۔ اب بتائیے کہ آپ کا علم النحو کدھر چلا گیا ؟« حَيًّا» کے بارے میں آپ نے یہ کیوں نہیں دیکھا کہ یہ نحو کے اعتبار سے کیا ہے؟ اور اس لحاظ سے آپ جو الزام دے رہے ہیں صحیح ہے کہ نہیں؟ پھر ابھی آپ الثالث میں ترجمہ کو زیادہ فصیح ثابت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ  «جس دن مردہ اٹھایا جائے گا »والا ترجمہ زیادہ فصیح ہوگا  کیونکہ ماقبل میں مردہ کا لفظ اس بات پر قرینہ ہوگا کہ مردہ کو زندہ کرکے ہی اٹھایا جائے گا۔ اور اب وہ فصاحت کدھر چلی گئی؟ اور اب زندہ کس طرح مردہ ہوئے بغیر اٹھ رہا ہے؟   ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔
2)              الاول:- جہاں تک ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ ہے تو اس کا علم بھی قرآن وحدیث ہی کے ذریعہ ہوگا من مانی نہیں۔ نص منسوخ مطلقاً ناقابل استدلال نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس قدر ہمیشہ استدلال کیا جائے گا کہ ناسخ کے آنے سے پہلے تک یہ حکم تھا البتہ ناسخ کے آنے کے بعد کسی نص منسوخ پر عمل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آپ نے «غیرمقلدوں کے فریب» نامی کتابچہ  کے حوالہ سے اہل حدیثوں پر ایک الزام نقل کیا ہے ۔ اس پوری کتاب کا جواب  «ضمیر کا بحران»نامی کتاب  مطبوعہ جامعہ سلفیہ بنارس اور «تقلید شخصی کے آسیب» نامی کتاب مطبوعہ الفرقان حیدراباد میں تفصیل کے ساتھ دیا جاچکا ہے ۔ اس کو دہرانے کی یہاں چنداں حاجت نہیں۔
الثانی:- جہاں تک آیات صفات کا مسئلہ ہے تو کسی بھی مسلمان عالم کا یہ قول نہیں کہ اس سے استدلال کرنا درست نہیں البتہ بعض علماء نے یہ بات کہی ہے کہ اس کی تاویل کی جائے گی۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نص قرآنی میں جس طرح ہے اسی طرح ثابت کیا جائے گا اور اس کی کیفیت اللہ کے سپرد کردی جائے گی۔ یعنی دونوں گروہ اسے قابل استدلال مانتے ہیں ایک تاویل کے ساتھ اور دوسرا تاویل کے بغیر ۔ صرف آپ ہی اسے ناقابل استدلال گرداننے کی ناروا جسارت فرمارہے ہیں۔
الثالث:- پروردگار عالم نے قرآن مجید میں اپنے نور کی جو مثال دی ہے ، کیا اس کا بیان کرنا حرام ہے؟  کیا کہیں خود اللہ تعالی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیان کرنے سے منع فرمایا ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کو اس کے بیان کرنے سے منع کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟
الرابع:- {يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ} [الفتح: 10] کا اصل لفظ کے اعتبار سے آپ نے ترجمہ پوچھا ہے  اور کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح آپ کے بزرگ مترجم نے « حَيًّا» کا ترجمہ اصل لفظ کی بالکل ضد زندہ کے بجائے مردہ کیا ہے ، مجھے بھی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اسی کو کہتے ہیں : عذر گناہ بدتر از گناہ۔
اگر آپ نے کنز الایمان اٹھا کر دیکھا ہوتا تو مجھ سے سوال نہ کیا ہوتا ، مگر افسوس کہ ابھی آپ نے اپنی کتابیں بھی نہیں پڑھی ہیں۔ آپ کے مترجم نے بالکل صحیح ترجمہ اور اصل لفظ کے اعتبار سے ترجمہ کیا ہے ، لیجئے وہیں سے نقل کردیتا ہوں: (ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے)۔ اگر اللہ کے لئے ہاتھ ماننا کفر ہے جیسا کہ آپ نے الثالث میں لکھا ہے تو بتائیے کہ آپ اپنے امام احمد رضا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جنھوں نے اللہ کے لئے اس آیت میں  ہاتھ ثابت کیا ہے؟  ان کے سلسلے میں شرعی حکم صادر کیجئے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے پاس دو پیمانے ہیں ، اپنوں کے لئے دوسرا اور بیگانوں کے لئے دوسرا؟ غیر« اللہ کا ہاتھ »کہے تو کافر ہوجائے اور آپ کے امام اعلی حضرت کہیں تو عین دین وایمان بن جائے۔؟ اور یہی ایک آیت نہیں دوسری آیات میں بھی ید کا لفظ آیا ہے اور امام احمد رضا نے اللہ کے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا ہے مثلاً : اللہ تعالی نے فرمایا: {قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} [ص: 75] (فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لئے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔)
الخامس:- جہاں تک ابراہیم علیہ السلام کے قول «هذه أختي» کا تعلق ہے تو وہ بھی قابل استدلال ہے۔ جس معنی میں ابراہیم علیہ السلام نے ھذہ اختی کہا تھا اس معنی میں آج بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ پوری روایت سے واضح ہوتا ہے۔ صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء حدیث نمبر ۳۳۵۸ میں ہے: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ( لم يكذب إبراهيم إلا ثلاث كذبات، ثنتين   منهن في ذات الله عز و جل . قوله { إني سقيم } . وقوله { بل فعله كبيرهم هذا } . وقال: بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة، فقيل له إن هاهنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس، فأرسل إليه فسأله عنها، فقال: من هذه ؟ قال: أختي ،فأتى سارة ،فقال يا سارة ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك، وإن هذا سألني فأخبرته أنك أختي فلا تكذبيني۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الحدیث
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے جس میں سے دو اللہ عز وجل کی ذات کے بارے میں تھا ، ایک ان کا( انی سقیم) کہنا،  اور دوسرا ان کا (بل فعلہ کبیرہم ہذا) کہنا، ایک دن کی بات ہے کہ وہ اور سارہ ایک ظالم وجابر بادشاہ کے پاس پہنچے، اس ظالم سے کہا گیا کہ اس شخص کے پاس نہایت خوبصورت عورت ہے ، اس نے ان کو بلا بھیجا اور سارہ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: میری بہن ہے۔ پھر سارہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے سارہ ! اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمھارے سوا کوئی مومن نہیں اور اس ظالم نے مجھ سے تمھارے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے بتلادیا کہ تم میری بہن ہو لہذا تم مجھے جھٹلانا نہیں۔  ۔ ۔ ۔ ۔ الحدیث
ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو اس اعتبار سے بہن کہا تھا کہ وہ ایمان کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بھائی بہن تھے کیونکہ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں جیسا کہ روایت میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمھارے سوا کوئی مومن نہیں۔
محترم! آپ ناقابل استدلال آیات واحادیث کی طویل فہرست کیا پیش کریں گے کہ آپ کی نظر میں جو آیات واحادیث سب سے زیادہ ناقابل استدلال رہی ہوں گی انھیں کو درج مراسلہ کیا ہوگا اور ان کا یہ حال ہے کہ سب قابل استدلال ہیں پھر بھی بزعم خویش اگر کوئی اور ناقابل استدلال آیت یا حدیث درج کرنے سے رہ گئی ہو تو اسے پیش کیجئے اور دل کی تسلی کرلیجئے۔ معلوم رہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ہر بیماری کا علاج رکھا ہے ۔ {وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ } [يونس: 82]
ہر آیت وحدیث کے قابل استدلال نہ ہونے کا پیمانہ بتاتے ہوئے آپ نے یہ آیت پیش کی ہے : {لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا} [النور: 63] ترجمہ:- ( رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے)۔ کنزالایمان میں اس کے حاشیہ میں لکھا ہے « کیوں کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکاریں اس پر اجابت وتعمیل واجب ہوجاتی ہے»۔
محترم ! کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ مذکورہ آیت آپ کے مقصد پر دلیل کس طرح ہے ؟ یہ تو الٹا آپ کے مقصد کے خلاف دلیل ہے کیونکہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو عام لوگوں کی بات کی طرح قرار دے رہے ہیں کہ ان میں کچھ دلیل کے لائق اور کچھ دلیل کے لائق نہیں ہوتی حالانکہ آیت یہ بتارہی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات عام لوگوں کی بات کی طرح نہیں ہوتی کیونکہ آپ کی ہر بات دلیل ہوتی ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔
آپ نے اس آیت کے ساتھ سورۂ حجرات کی جو آیت جوڑدی ہے وہ بھی آپ کے مقصود پر دلیل نہیں۔ آیت اس طرح ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} [الحجرات: 2]  اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمھارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمھیں خبر نہ ہو۔
اس آیت کی روشنی میں بتائیے کہ ایک شخص کے سامنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پہنچتی ہے اور وہ چلا کر کہتا ہے کہ یہ قابل استدلال نہیں ۔ اس کے متاع ایمان وعمل کا کیا حشر ہوگا؟
3)              الاول:-جہاں تک آیت میں مثلیت کے ثبوت اور حدیث میں مثلیت کی نفی کی بات ہے تو دونوں ایک اعتبار سے نہیں بلکہ مختلف اعتبارات سے ہے اور دونوں اپنی جگہ درست ہے، ہم دونوں پر ایمان رکھتے ہیں ، ہمارا طریقہ« نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ »  یعنی (کچھ پر ایمان اور کچھ کا انکار) کا نہیں ہے۔ یہ طریقہ آپ ہی لوگوں کو مبارک ہو۔ آپ نے یہاں پر قرآن کا انکار کرکے حدیث کو اپنا لیا ہے، اگر آپ کو آیت اور حدیث کی تطبیق نہیں سمجھ میں آئی تھی تو کسی عالم سے رجوع کرلیتے اور اپنے شک کو رفع اور شبہ کو دفع کرلیتے۔ قرآن مجید میں بشر ہونے کے اعتبار سے مثلیت ثابت کی گئی ہے ، یعنی جس طرح ایک بشر ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ، اس کا خاندان اور اس کی رشتہ داریاں ہوتی ہیں، وہ کھاتا پیتا اور سوتا ہے، وہ بازاروں میں چلتا پھرتا اور خرید وفروخت کرتا ہے، اس کو بشری عوارض وحاجات پیش آتے ہیں ، وہ بیمار پڑتا ہے، وہ زخمی ہوتا ہے، اسے موت آتی ہے وغیرہ، اسی طرح ہر نبی بشر ہوتا ہے اور اس کو یہ ساری چیزیں پیش آتی ہیں۔ خود ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ ساری چیزیں پیش آئی ہیں۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں، جو تفصیل کے خواہش مند ہوں وہ مولانا نذیر احمد املوی صاحب کی کتاب «رد عقائد بدعیہ »پڑھیں جو جامعہ سلفیہ بنارس سے طبع ہوچکی ہے۔
اسی طرح احادیث میں جو مثلیت کی نفی آئی ہے ، اگر آپ نے حدیث کا صرف ایک ٹکڑا نہیں بلکہ پوری حدیث پڑھی ہوتی تو آپ کا اشکال ختم ہوگیا ہوتا۔ ان احادیث میں بشریت کے اعتبار سے مثلیت کی نفی نہیں کی گئی ہے بلکہ رب کے پاس آپ کے مقام ومرتبہ اور آپ پر اللہ کے انعام واحسان اور فضل وکرم کے اعتبار سے مثلیت کی نفی کی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے؟؟؟
آئیے اس بات کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھتے ہیں مثلاً : آپ کہیں کہ زید شیر کے مثل ہے یعنی بہادری کے اعتبار سے، اور زید شیر کے مثل نہیں ہے یعنی درندہ حیوان ہونے کے اعتبار سے۔ ایک جملہ میں مثلیت کا اثبات ہے اور دوسرے میں مثلیت کی نفی ہے ۔ اس کے باوجود دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہے۔ آپ ہی جیسا کوئی شخص ہوگا جو کہے گا کہ ان دونوں میں تضاد ہے، اور زید شیر کے مثل ہے سن کر زید کے جسم میں دم اور پنجے تلاش کرے گا۔
ہم قرآن کی ہر آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حدیث اور سنت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس سے اسی طرح استدلال کو صحیح اور درست سمجھتے ہیں جس طرح صحابۂ کرام اور سلف صالحین سمجھتے تھے۔
الثانی:-  اس کا جواب الاول میں گزرچکا ہے۔ جس باطل بنیاد پر آپ نے عمارت کھڑی کی تھی اس بنیاد کے ساتھ ہی عمارت زمیں بوس ہوگئی۔  ؏ خشت اول چوں نہد معمار کج            تا ثریا می رود دیوار کج
ہم نہ آیت کا انکار کرتے ہیں اور نہ حدیث کا، دونوں پر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں اور عمل کرتے ہیں جس طرح صحابۂ کرام اور سلف صالحین کیا کرتے تھے۔
الثالث:- آپ نے ذکر کیا ہے کہ رب کا خطاب فرشتوں سے آدم کو سجدہ کرنے کا تھا اور یہ قابل استدلال نہیں ہے حالانکہ اس سے بڑھ کر قابل استدلال اور کون سی بات ہوگی کہ رب کا حکم ماننا ضروری ہے۔ ابلیس کی غلطی تو یہی تھی کہ اس نے رب کے خطاب کو قابل استدلال نہیں سمجھا اور اس پر عمل نہیں کیا اور راندۂ درگاہ ہوا۔ کیا آپ بھی ابلیس کی طرح رب کے خطاب کو قابل استدلال نہیں سمجھتے؟
الرابع:- آپ نے ذکر کیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو ان کے والدین اور گیارہ بھائیوں نے سجدہ کیا تھا جس کا تذکرہ سورۂ یوسف میں ہے اور یہ قابل استدلال نہیں ہے حالانکہ آپ کی بات بالکل غلط ہے۔ وہ پوری طرح قابل استدلال ہے، اس سے یہ استدلال کیا جائے گا کہ یعقوب اور یوسف علیہم السلام کی شریعتوں میں سجدۂ تعظیمی درست تھا۔
البتہ ہماری شریعت میں اس کاحکم کیا ہے؟ تو اس سلسلہ میں مختصراً عرض ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: {لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ} [فصلت: 37] (سورج کو اور چاند کو سجدہ نہ کرو ، اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔)
مسند احمد اور سنن ابن ماجہ کی روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ ملک شام گئے ، وہاں انھوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدہ کرتے ہیں۔ یہ جب لوٹے تو انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : معاذ! یہ کیا بات ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے بسبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس کے اوپر ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، سورہ یوسف کی آیت نمبر ۱۰۰ کی تفسیر)۔
اسی طرح حدیث میں ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمان! مجھے سجدہ نہ کرو، سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے ، جو کبھی نہ مرے گا۔ (حوالۂ مذکورہ بالا)
سجدۂ غیراللہ کی حرمت ثابت کرنے کے لئے اہل حدیث آپ کی طرح یہ نہیں کہتا کہ یہ آیت ہی قابل استدلال نہیں (معاذ اللہ) بلکہ وہ اس طرح کہتا ہے: «اگر کوئی کہے کہ پہلے دینوں میں مخلوق کو بھی سجدہ روا تھا مثلاً فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو اور یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا اس لئے اگر ہم بھی کسی بزرگ کو تعظیمی سجدہ کریں تو کیا حرج ہے؟ یاد رکھو اس سے شرک ثابت ہوجاتا ہے ، ایمان نکل جاتا ہے۔ آدم علیہ السلام کی شریعت میں بہنوں سے نکاح کرنا جائز تھا، اسے دلیل سمجھ کر یہ لوگ اگر بہنوں سے نکاح کرلیں تو کیا حرج ہے، مگر سخت حرج ہے کیونکہ بہنیں محرمات ابدیہ میں داخل ہیں جو کسی صورت سے حلال ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کردینا چاہئے، خواہ مخواہ کی حجت نہیں پیش کرنی چاہئے۔»
جناب عالی! یہاں نہ تقلید کی مدہوشی ہے اور نہ کسی  کی بے جا وکالت کا جوش۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ ہم اللہ رب العالمین کے اس بات پر شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں کتاب وسنت کا علم اور دینی بصیرت عطا فرمائی ہے اور ہر طرح کے زیغ وضلال سے محفوظ رکھا ہے۔ اور اس کی وجہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل ہے:  «تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي».
الخامس:- محترم! آپ دو باتوں میں فرق و تمیز نہ کرنے کی بنا پر ان مغالطوں کا شکار ہیں، دیکھئے کسی آیت یا حدیث کا مطلقاً ناقابل استدلال ہونا دوسری بات ہے اور کسی مخصوص حکم کے لئے ناقابل استدلال ہونا دوسری بات ہے۔ ان دونوں میں فرق سمجھ لیجئے ساری گرہیں آپ ہی آپ کھل جائیں گی۔
4)              میں نے  گذشتہ مراسلہ میں نمبر ۴ میں آپ سے کچھ سوالات کئے تھے لیکن آپ جواب میں اسے گول کرگئے ہیں اور آخر میں چلتے چلتے آپ نے لکھا ہے کہ سوال نمبر۴  کا جواب جواب نمبر۵  ہی میں دے دیا گیا ہے ،  اس لئے اس کا الگ سے نمبر نہیں ڈالا گیا ہے۔
سوال نمبر ۲ میں بھی آپ نے یہی معاملہ کیا تھا جس کی بنا پر مجبوراً دوبارہ اس مراسلہ میں بھی اسے نقل کیا گیا ہے ، سوال نمبر۴ بھی دوبارہ نقل کرنے کی ضرورت ہے  مگر اس طرح کہاں تک پرانی باتیں نقل کرتے اور دہراتے رہیں گے اور کب تک آپ کے تغافل اور کورچشمی پر تنبیہ کرتے رہیں گے لیکن بہرحال یہ سوال آپ پر قرض ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کی عدم تقسیم اور آپ کی بیویوں سے نکاح کی حرمت کی علت آپ کی دنیاوی حیات ہے، یہ آپ کے گھر کی من گھڑت اور خانہ ساز علت ہے ، یا اس کی کوئی دلیل ہے؟ اگر دلیل ہے تو پیش کیجئے ورنہ اقرار کیجئے کہ یہ بے دلیل اور من گھڑت ہے۔
5)              الاول:- زیر بحث مسئلہ میں پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ہوچکی ہے۔ آپ بھی اس بات کو مانتے ہیں ، بھلے ہی اسے ایک آن اور ایک لمحہ کے لئے مانیں مگر مانتے ہیں۔  دوسری بات جس پر پوری امت کا اتفاق ہے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم موت کے بعد زندہ ہیں، اس میں بھی کسی کا اختلاف نہیں۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اختلاف ہے کہاں؟ اختلاف اس بات میں ہے کہ موت کے بعد جو زندگی ہے اس کی کیفیت کیا ہے؟  اس کے تعلق سے آپ کا عقیدہ ومسلک یہ ہے کہ اس کی کیفیت دنیاوی زندگی کی طرح ہے مگر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ احساس دنیوی نہیں ہے ، سوال یہ ہے کہ جب احساس دنیوی نہیں تو پھر دنیوی زندگی کی طرح کیفیت کہاں ہوئی ؟ آپ نے بزعم خویش یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے برزخی زندگی اپنی رائے سے کہا ہے جب کہ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ کیوں کہ اس بات پر پوری امت کا جماع ہے کہ آپ کی یہ زندگی موت کے بعد کی زندگی ہے اور اس پر بھی پوری امت کا اجماع ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کا نام برزخی زندگی ہے۔ اگر آپ کو اس اجماع پر اعتراض ہے تو یا تو یہ ثابت کیجئے کہ اجماع دلیل شرعی نہیں ؟ اور یا یہ اعلان کیجئے کہ آپ کا راستہ اجماع امت سے الگ ہے؟ اور یا یہ بات ثابت کیجئے کہ اس بات پر سرے سے اجماع ہوا ہی نہیں۔ ودونہ خرط القتاد۔
دراصل حقیقت یہ ہے  کہ حیات انبیاء سے زیادہ آپ کو حیات اولیاء کے ثبوت سے دلچسپی ہے کیونکہ قبروں پر عرس ومیلے ، نذر ونیاز  اور چڑھاوے کا کاروبار اسی سے وابستہ ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر تیشہ چلنے سے پوری عمارت گرجائے گی۔ اور آپ لوگ نہایت آسانی کے ساتھ حیات انبیاء پر حیات اولیاء کو عطف کردیا کرتے ہیں اور کوئی آپ سے یہ سوال کرنے والا نہیں کہ حیات اولیاء کو آپ نے کس دلیل سے عطف کیا ہے؟ اگر ایسا کوئی کردے تو شاید قیامت تک اس کے سامنے سوائے لفاظی اور دھاندلے بازی کے کوئی دلیل نہ پیش کرسکیں گے۔
الثانی:- آپ نے واقعۂ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء کی امامت فرمانے کا واقعہ ذکر کیا ہے اور سوال کیا ہے کہ حیات برزخی والے حیات دنیاوی والے امام کی اقتدا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ 
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وعمل دلیل ہے۔ آپ نے جو بھی کیا وہ ثابت اور مشروع۔ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دلیل نہیں مانتے جو الگ سے دلیل طلب کررہے ہیں؟
اس شق میں آپ کے جتنے سوالات ہیں ان کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرعمل بذات خود دلیل ہے ، الگ سے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ پریشانی کی بات آپ کے لئے ہے کیونکہ آپ ہر قول وعمل کو قابل استدلال نہیں مانتے۔
الثالث والرابع:- اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کی موت کا تذکرہ دسیوں آیات میں کیا ہے جیسا کہ پہلے مراسلہ میں لکھا جاچکا ہے  اور اس کے بعد حیات کا تذکرہ کیا ہے اور موت کے بعد کی حیات کو برزخی پوری امت اجماعی طور پر کہتی ہے۔ اجماع سے ہٹے ہوئے کچھ افراد اسے حیات دنیوی کہتے ہیں۔ اور جس کے لئے ان کے پاس قرآن وسنت کی ایک بھی دلیل نہیں۔ پوری دنیائے بریلویت اکٹھا ہوکر ایک بھی صحیح اور صریح دلیل پیش نہیں کرسکتی جس میں حیات دنیا کا ذکر ہو۔
الخامس الی الثامن :- رب کے دیدار کی لذت موت کے بعد ہی مل سکتی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:  «تعلموا أنه لن يرى أحد منكم ربه عز و جل حتى يموت».  (صحیح مسلم وسنن ترمذی) یعنی تم میں سے کوئی موت سے پہلے اپنے رب عز وجل کا دیدار نہیں کرسکتا۔ آنجناب نے انبیاء و شہداء  کو حیات دنیا میں مقید کرکے اور ان کی موت نہ مان کر انھیں رؤیت باری کے شرف سے محروم کردیا ہے۔ کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ کوئی شخص موت اور حیات برزخ سے پہلے اپنے رب کا دیدار کرسکتا ہے؟
اور جہاں تک «حی» کے اطلاق کو برزخ سے مقید کرنے کا سوال ہےتو اس کا جواب اس سے قبل کی سطروں میں دیا جاچکا ہے۔ البتہ آپ پر یہ قرض ہے کہ مطلق حیات کو دنیا سے مقید کرکے آپ قرآن میں زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں یا نہیں؟
التاسع: قرآن وحدیث میں انبیاء وشہداء کو مردہ کہنے بلکہ گمان کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ کیا صحابۂ کرام کے سامنے یہ آیت اور حدیث نہیں تھی، انھوں نے کیا اس آیت کا وہی مطلب سمجھا تھا جو آپ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں، اگر یہی مطلب ہے تو کیوں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے  «توفی» اور «مات»  کا لفظ استعمال کیا۔
صحیح بخاری اٹھائیے ، کتاب المغازی کھولئے۔« باب مرض النبي صلى الله عليه و سلم ووفاته  »کی تمام احادیث  اور« باب وفاة النبي صلى الله عليه و سلم» کی تمام احادیث پڑھ ڈالئے۔ دل کی بیماری کا اس سے اچھا علاج کوئی نہیں۔  چند احادیث کے چند الفاظ بلا ترجمہ مختصراً ذکر کئے جارہے ہیں۔ (حتى قبضه الله) , (كان النبي صلى الله عليه و سلم يقول في مرضه الذي مات فيه)، (فلما اشتكى وجعه الذي توفي فيه) ، (سارني النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرني أنه يقبض في وجعه التي توفي فيه فبكيت), (يقول في مرضه الذي مات فيه), (وأصغت إليه قبل أن يموت) . . . .   یہ تو صرف صحیح بخاری کی بات ہے  بقیہ کتب ستہ اور دیگر کتب حدیث میں بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موت اور وفات کے الفاظ صحابہء کرام نے استعمال کئے ہیں۔
العاشر:- آپ فرماتے ہیں کہ «یہ احساس دنیوی والی حیات نہیں »یہی بات تو پوری امت کہتی ہے کہ انبیاء وشہداء  موت کے بعد زندہ ہیں مگر وہ دنیاوی زندگی نہیں۔ آپ جب دنیاوی احساس والی حیات نہیں مانتے تو پھر کیوں اس نام سے امت میں اختلاف پیدا کررکھا ہے؟
الحادی عشر:- آپ فرماتے ہیں کہ«  ہم تو صرف ان کے قول کو مانتے ہیں»  کیا آپ ان کے عمل کو دلیل نہیں مانتے؟  اور آپ تو تمام اقوال کو بھی دلیل نہیں مانتے ، کچھ کو قابل استدلال اور کچھ کو ناقابل استدلال مانتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اپنا جو عقیدہ بنا رکھا ہے اس سے جو آیت یا حدیث ٹکراتی ہے  اگر قول ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو عمل کو دلیل مانتے ہیں اور اگر عمل ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف قول کو دلیل مانتے ہیں ورنہ حقیقت میں آپ نہ عمل کو مانتے ہیں اور نہ قول کو، صرف اپنی خانہ ساز شریعت کو مانتے ہیں اور بس!!۔
الثانی عشر: - یہاں بھی آپ نے فرمایا: «وہ زندہ ہیں ، ہاں احساس دنیوی نہیں ہوتا »یعنی بار بار آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ دنیاوی احساس  والی زندگی نہیں   ہے  اور پھر بھی اڑے ہوئے ہیں کہ وہ دنیاوی زندگی ہے اور امت میں اختلاف پیدا کر رکھا ہے۔ آخر ایسی زندگی کا عقیدہ تو پوری امت کا ہے ، اختلاف تو صرف آپ کی طرف سے یہ ہے کہ وہ بالکل دنیاوی زندگی ہے جبکہ آپ اس کے حق میں ایک بھی صحیح اور صریح دلیل نہیں پیش کرسکتے ہیں۔
الثالث عشر:- آنجناب نے انبیاء کے ترکہ کی عدم تقسیم کے بارے میں یہ تسلیم کیا کہ حیات دنیوی اس کی علت ہونا کسی حدیث میں مذکور نہیں اور پھر اس کی علت دریافت کیا ہے، اس کی علت کیا ہے؟ آپ کو اس سے کیا سروکار؟ ہاں اگر یہ ثابت کرسکیں کہ حیات دنیوی اس کی علت ہے تو ثابت کیجئے ورنہ تسلیم کیجئے کہ ہم ایسا ثابت کرنے سے بے بس ہیں۔
ازواج مطہرات کی حرمت کے سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں: «ممکن ہے ازواج مطہرات کی حرمت کا ایک سبب ماں ہونا اور دوسرا سبب نبی کریم کا زندہ ہونا ہو » محترم! صرف امکان سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔ دلیل پیش کرنی پڑتی ہے۔ اگر دم خم ہے تو دلیل پیش کیجئے!
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا            لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
پھر آپ نے آیت {وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا} [الأحزاب: 53] سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ «اس میں حکم ہے کہ رسول اللہ کو ایذا مت دو ، کیسی ایذا مثلاً ان کی ازواج سے نکاح کرنا »آپ نے ان کی ازواج سے نکاح کو ایذا کی مثال قرار دیا ہے  اور یہ آپ کے اپنے گھر کی گھڑی ہوئی بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن میں دو حکم الگ الگ بیان کئے گئے ہیں ، عطف مغایرت کا طالب ہے۔ اگر آپ نے اس آیت کا ترجمہ کنزالایمان میں دیکھا ہوتا تو ایسی بات نہ فرماتے۔ ترجمہ ہے:« اور تمھیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو»۔ ترجمہ کا انداز بتلاتا ہے کہ دونوں دو حکم ہیں ، ایک کا تعلق وفات کے پہلے سے ہے اور دوسرے کا تعلق وفات کے بعد سے۔
آپ نے اسی باطل بنیاد پر نبی کی غیب دانی، موت کے بعد بھی دنیاوی زندگی اور حاضر ناظر ہونے کی عمارت کھڑی کی تھی، بنیاد ٹوٹنے کے ساتھ پوری عمارت زمیں بوس  ہوگئی۔
اب فرمائیے! آپ کی طلب اور خواہش کے مطابق ہر سوال کے ہر شق کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ ترتیب وار دے دیا گیا اور نہایت ہی مسکت اور دنداں شکن۔ کیا اب بھی آپ کی آنکھ کھلے گی یا نہیں؟ یا آپ آنکھ کھولنا ہی نہیں چاہتے؟ ؟ اللہ تعالی ہم سب کو حق کی قبولیت کی سعادت سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔
آخری بات:
مراسلہ کے اختتام پر ہم وہ دعا ذکر کررہے ہیں جو اختلاف کے وقت حق تک پہنچنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے، دعا یہ ہے:  
((اللهم رب جبرائيل وميكائيل وإسرافيل فاطر السماوات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنك تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم))(رواه  مسلم)
اس دعا کا زیادہ سے زیادہ ورد کیجئے ، حق تک پہنچنے میں ان شاء اللہ آسانی ہوگی۔ وما علینا الا البلاغ
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
عبد الہادی عبد الخالق المدنی
15/7/99




([1])  آپ نے اسی طرح لکھا ہے جب کہ صحیح املا  «چھیاسٹھ »ہے۔
([2]) اسی طرح لکھا گیا ہے  جب کہ  صحیح املا  «بے وقوف» ہے۔