الجمعة، 22 ديسمبر 2023

 گناہوں کی دھلائی اور صفائی کے چار طریقے 

 دنیاوی زندگی میں گناہوں کی آلائشوں سے ایمان و معرفت کی پاکی کے چار ذرائع ہیں:  ایک توبہ  ، دوسرے استغفار   ، تیسرے نیک اعمال اور چوتھے مصائب و آلام۔ نیکیاں گناہوں کو مٹاتی ہیں  اور مصائب و آلام گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں۔  جس شخص کا ایمان ان مذکورہ چار چیزوں کے ذریعے سے گناہوں کی آلائشوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے تو جس وقت اسے فرشتے وفا ت دینے کے لئے آتے ہیں  وہ بالکل پاکیزہ ہوتا ہے لہذا  فرشتے اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں ۔  

ﵟإِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسۡتَقَٰمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ ٱلۡمَلَٰئِكَةُ أَلَّا تَخَافُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَبۡشِرُواْ بِٱلۡجَنَّةِ ٱلَّتِي كُنتُمۡ تُوعَدُونَ ٣٠ نَحۡنُ أَوۡلِيَآؤُكُمۡ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِي ٱلۡأٓخِرَةِۖ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَشۡتَهِيٓ أَنفُسُكُمۡ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَدَّعُونَﵞ [فصلت: 30-31]  

(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو ۔  تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے، جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے (جنت میں موجود)  ہے۔

اگر مذکورہ چاروں چیزیں گناہوں کی آلائشوں سے پاکی کا ذریعہ نہ  بن سکیں وہ اس طرح کہ توبہ سچی اور خالص نہیں تھی یا تمام گناہوں کے لئے نہیں تھی۔ استغفار بھی کامل و مکمل نہیں تھا کیونکہ اس کے ساتھ گناہوں سے دوری اور ندامت نہ پائی گئی کیونکہ ایسے استغفار کا کوئی فائدہ نہیں جس میں گناہ کا چھوڑنا نہ پایا جائے یعنی ایک ہاتھ میں شراب کا پیالہ ہو اور زبان پر  استغفراللہ کی رٹ ۔ اس کے پاس نیکیاں بھی اتنی کمیت و کیفیت میں نہیں تھیں جو تمام گناہوں کا کفارہ بن سکیں اور نہ ہی اس پر اتنے مصائب وآلام آئے جس کے ذریعے اس کے گناہ مٹ جائیں۔ تو پھر ایسے شخص کی پاکی برزخ اور آخرت میں ہوگی۔

------

-------

--- جاری

اکسیر  (3) 

سالکین راہ حق کے مقامات کا سلسلہ وار خوبصورت تذکرہ

مدارج السالکین نامی کتاب سے قلبی اعمال کا خلاصہ

از : عبد الہادی عبد الخالق مدنی

 عبودیت کی دو قسمیں 

جب ایک بندہ ایک طرف اللہ کے عظیم الشان احسانات کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف اس کی شکر گزاری میں اپنی کوتاہی پر نظر پڑتی ہے تو عبودیت کی دو قسمیں اس کے دل میں پروان پاتی ہیں ایک تو اپنے منعم ومحسن کی محبت، دل میں اسی کی یاد زباں پر اسی کا ذکر، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے گرم جوش، اس کی اطاعت میں سرِ تسلیم خم، دوسری عبودیت اس منعم کے مقابلے میں اپنی حقارت اور اس کی نعمتوں کے شکر کی ادائیگی سے عاجزی کا شدید إحساس،  خواب غفلت سے بیدار ہونے سے پہلے کی بداعمالیوں اور بدکرداریوں کی خلش، ایک عظیم خطرہ سر پر منڈلاتا ہوا، اگر حقدار اپنے حق میں کوتاہی پر گرفت کرلے تو ہلاکت یقینی ہے۔ اس صورتحال میں  بندہء عاجز اپنے حوصلے سمیٹ کر تلافیِ مافات کے لیے علم و عمل سے لیس ہوکر استغفار وندامت کے ذریعے حصول نجات کے لئے سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔ جرم و گناہ کی آلائشوں سے پاک ایمان و معرفت اور صالح عمل و کردار کی ایک نئی زندگی گزارنا شروع کرتا ہے۔

------

-------

--- جاری

اکسیر  (2) 

سالکین راہ حق کے مقامات کا سلسلہ وار خوبصورت تذکرہ

مدارج السالکین نامی کتاب سے قلبی اعمال کا خلاصہ

از : عبد الہادی عبد الخالق مدنی

 سالک کا پہلا مقام 

مقام بیداری

آؤ کامیابی کی طرف 

ایک بندہ خواب غفلت کا شکار ہوتا ہے۔ دل سوتا ہے آنکھیں جاگتی ہیں۔ اللہ تعالی اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے۔ حی علی الفلاح کی صدائیں اس کے کانوں سے ٹکراتی ہیں۔ اسے نجات و کامیابی کی پکار سنائی دیتی ہے۔ یکایک وہ اپنی نیند سے بیدار ہو جاتا ہے۔ خواب غفلت کی چادر اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ غفلت کی مدہوشی ٹوٹ جاتی ہے۔ اللہ کی طرف اور اللہ کی جنت کی طرف سفر کے لیے کمر کس لیتا ہے۔ یہ ایک سالک کا پہلا مقام ہے۔

خواب غفلت کا خاتمہ ہوا۔ بیداری ملی۔ دل میں ایک نور روشن ہوگیا۔ اللہ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا مشاہدہ ہونے لگا۔ جس قدر بیداری بڑھتی جاتی ہے اللہ کے انعامات کی عظمت وکثرت نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا شمار ناممکن ہے۔ یہ تو بے حد و حساب ہیں۔ کیا کوئی ان کی قیمت ادا کرسکتا ہے؟ کیا بلا کسی حق کے ان نعمتوں کا مسلسل ملنا عظیم الشان احسان نہیں؟ دل بیدار سوال کرتا ہے کہ میں ان احسانات کی شکر گزاری کے لئے کیا کروں؟ شکر گزاری کے فریضے میں کس قدر کوتاہی کا مرتکب رہا ہوں اب ان کی تلافی کیسے ہو سکتی ہے؟

------

-------

--- جاری

اکسیر (1)

سالکین راہ حق کے مقامات کا سلسلہ وار خوبصورت تذکرہ

مدارج السالکین نامی کتاب سے قلبی اعمال کا خلاصہ

از : عبد الہادی عبد الخالق مدنی

 


الأحد، 26 يونيو 2022

 

سال کے سب سے زیادہ بابرکت ایام

اعداد: عبد الہادی عبد الخالق مدنی

-

کائنات میں درجہ بندی کا نظام

پوری کائنات اللہ کی مخلوق ہے، اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو ایک درجہ میں نہیں رکھا بلکہ ان میں درجہ بندی کی ہے، کسی کو کسی پر فضیلت عطا کی ہے، کسی کو بلند اور کسی کو پست رکھا ہے، کسی کو اعلی درجہ دیا ہے اور کسی کو ادنی درجہ دیا ہے،کسی کو عام بنایا اور کسی کو خاص، کسی کو اپنا منتخب بنایااور دوسروں پر واضح فضیلت عطا فرمائی، ارشاد باری ہے: (وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ) القصص: ٦٨ (اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔)

اللہ تعالی  نے اوقات ومقامات بلکہ افراد انسانی میں بھی یہ درجہ بندی قائم کی ہے ، اللہ تعالی نے انسانوں میں اپنے نبیوں اور رسولوں کو اپنا منتخب بندہ بنایا  اور پھر ان میں بھی ایک کو دوسرے پر فضیلت دی، ارشاد ہے: ((تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ)) البقرة: ٢٥٣ (یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں۔)

اولوالعزم رسولوں کو بقیہ رسولوں پر فضیلت ہے ، اللہ کے دونوں خلیلوں کو اولوالعزم رسولوں کے اندر فوقیت حاصل ہے، اور خاتم الانبیاء  تو تمام بنی آدم کے سردار ہیں جن میں انبیاء ورسل بھی آتے ہیں۔

اللہ تعالی نے مہینوں میں ماہ رمضان کو فضیلت دی، سال کے دنوں میں عرفہ کے دن کو اور ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کے دن کو فضیلت عطا کی، راتوں میں شب قدر کو فضیلت سے نوازا، عشروں میں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ  اور رمضان کا آخری عشرہ فضیلت والا بنایا اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے دنوں کا جواب نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کی کوئی مثال نہیں۔

سال کے تین عشرے:

سال میں تین عشرے بہت معروف ہیں، ذوالحجہ کا ابتدائی عشرہ، رمضان کا  آخری عشرہ اور محرم کا پہلا عشرہ ، آیئے دیکھتے ہیں کہ ان تینوں عشروں میں کیا فرق ہے؟

ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ کے فضائل کی تفصیل آگے آرہی ہے، رمضان کا آخری عشرہ بھی کافی اہمیت وفضیلت کا حامل ہے، چنانچہ رمضان کے آخری عشرہ کے تعلق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔

رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کا تلاش کرنا مستحب ہے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی تلاش میں محنت کیا کرتے تھے۔ جب آخری عشرہ آتا تو راتوں کو بیدار رہتے ، اپنے اہل وعیال کو جگاتے اور کمر کس لیتے۔

رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بھی فرمایا کرتے تھے ۔ آپ کی ازواج مطہرات نے بھی آپ کی زندگی میں آپ کے ساتھ اور آپ کی وفات کے بعد مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔

جہاں تک محرم کے پہلے عشرہ کی بات ہے تو عوامی شہرت کی حد تک یہ پہلے نمبر پر ہے لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے اردو اور ہندی بولنے والے بھائیوں کے درمیان کھوٹے سکے ہی زیادہ رائج ہیں، محرم کے پہلے عشرہ میں جو کچھ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے سراسر بے بنیاد ہے، عشرۂ محرم کی کوئی حقیقت نہیں صرف عاشورۂ محرم کی حقیقت ہے، عاشوراء اور عشرہ میں وہی فرق ہے جو اردو زبان میں دس اور دسواں میں فرق ہے، عاشوراء صرف دسویں تاریخ کا نام ہے جبکہ عشرہ پورے دس دنوں کو شامل ہے۔

جہاں تک صوم عاشوراء کی بات ہے تو یہ مستحب ہے۔ اس دن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے صوم رکھا، اس سے قبل اسی دن موسی  علیہ السلام  نے اﷲ کے شکریہ میں صوم رکھا تھا، کیونکہ اس دن اﷲ تعالی نے موسی  علیہ السلام  اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا تھا، چنانچہ موسی علیہ السلام اور بنو اسرائیل نے اﷲ کے شکریہ کے طور پر اس دن صوم رکھا اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اﷲ کے نبی موسی  علیہ السلام  کی اقتدا کرتے ہوئے اس دن صوم رکھا۔ اہل جاہلیت بھی اس دن صوم رکھا کرتے تھے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت پر اس دن کے صوم کی تاکید فرمائی لیکن جب رمضان فرض ہوگیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہوا: «جو چاہے عاشوراء کا صوم رکھے اور جو چاہے افطار کرے» ۔  (  یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء (کتاب :36 باب :68 حديث:1897) كتاب التفسير باب سورة البقرة (کتاب :68 باب:2 حديث:4232)  اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصيام باب صوم يوم عاشوراء میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :13باب :19 حديث:115-(1125))۔ )

عبد اﷲ بن عباس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: «جب رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء کا خود صوم رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم فرمایا تو صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا ان شاء اﷲ ہم نویں تاریخ کا (بھی) صوم رکھیں گے۔ عبد اﷲ بن عباس  رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوگئی» ۔  (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب أي يوم يصام في عاشوراء (کتاب :13 باب:۲0 حدیث :۱3۳ (۱134)) میں مروی ہے۔)

ابوقتادہ  رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: «صوم عاشوراء سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال کا کفارہ ہے» ۔   (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس (کتاب :13 باب :36 حدیث :196 (۱162)) میں مروی ہے۔)

یوم عاشوراء کا مہینہ ماہ محرم حرمت وا لے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس ماہ میں بھی نفلی صوم رکھنے کی فضیلت حدیث میں آئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: «رمضان کے بعد سب سے افضل صوم اﷲ کے مہینہ محرم کا صوم ہے اور فرائض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة (تہجد) ہے» ۔ (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب فضل صوم المحرم (کتاب :13 باب :38 حدیث:202 (۱163)) میں مروی ہے۔ )

مسلمان برکتوں کے درمیان

ایک مسلمان ہمیشہ برکتوں کے درمیان ہوتا ہے، اس کا قول بھی مبارک، اس کا عمل بھی مبارک اور اس کا وقت بھی مبارک ہے۔

قول کی برکت یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیت کا ایک حرف اپنی زبان سے ادا کرتا ہے اور دس نیکیوں کا مستحق ہوجاتا ہے، اللہ کی رضا کا کوئی کلمہ بولتا ہے اور جنت میں اس کے درجات بلند ہوجاتے ہیں۔

عمل کی برکت یہ ہے کہ پانچ صلاتیں پڑھتا ہے پچاس صلاتوں کا ثواب حاصل کرتا ہے، رمضان کے ایک ماہ کا صوم رکھتا ہے دس مہینے کے صوم کا ثواب پاتا ہے اور شوال کے چھ دن اور صوم رکھ لے تو پورے سال حالت صوم میں رہنے کے اجروثواب سے سرفراز ہوتا ہے۔ ایک دانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عوض ستر دانے بلکہ سات سو دانے بلکہ اللہ تعالی جسے چاہے اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اوقات کے سلسلہ میں جو بعض لوگوں نے مبارک ومنحوس (یا سعد ونحس) کی تقسیم کی ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ مسلمان کا دن اور مہینہ اس کے اپنے عمل اور کردار کی بنیاد پر مبارک یا نامبارک ہے ورنہ اللہ کی شریعت کے مطابق کوئی دن یا مہینہ منحوس نہیں۔

سب سے زیادہ بابرکت ایام

ذوالحجہ کا پہلا عشرہ یعنی اس کے ابتدائی دس دن سال کے سارے دنوں میں سب سے زیادہ برکت والے دن ہیں، ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، ان میں نیکیاں کمانے کے متعدد مواقع ہیں، ان کی فضیلت کے بہت سے دلائل ہیں۔

Π ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی پہلی فضیلت  یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دنوں کی قسم کھائی ہے۔ ارشاد ہے: ((وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ (4) هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ)) الفجر: ١ - ٥ (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلنے لگے، کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے؟۔)

دس راتوں سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں مراد ہیں ۔  (ملاحظہ کیجئے تفسیر طبری وابن کثیر وآلوسی وغیرہ۔)

Ï  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی قسم کھاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اہم چیزوں کی بھی قسم کھائی ہے۔ ان اہم چیزوں  کی عظیم الشان اہمیت کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھی عشرہ کی بھی اہمیت وعظمت واضح ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ فجر کی قسم کھائی گئی جو ایسا قیمتی وقت ہے جس وقت اندھیرے کے بعد اجالا بکھرتا ہے، سکون کے بعد حرکت واپس آتی ہے، نیند جو چھوٹی موت ہے ختم ہوکر بیداری اور زندگی شروع ہوتی ہے، اس وقت دن اور رات کے فرشتے اکٹھا ہوتے ہیں، یہ رات کی آخری تہائی سے بہت قریبی وقت ہے جب کہ رب ذوالجلال آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فجر کے وقت کی صلاۃ ہی وہ صلاۃ ہے جس سے مومن ومنافق کی پہچان ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ جفت اور طاق کی قسم کھائی، جفت اور طاق میں ساری مخلوق آجاتی ہے، مخلوق یا تو جفت ہے یا طاق، اس سے ہٹ کر نہیں، ذوالحجہ کے دس دنوں میں بھی ایک اہم طاق موجود ہے جو عرفہ کادن ہے، نو تاریخ کو ہے ، اور ایک اہم جفت موجود ہے، اور وہ قربانی کا دن ہے، جو دس تاریخ کو ہے۔

اس کے ساتھ میں رات کی قسم کھائی گئی جو دن سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، قرآن پاک میں رات کا ذکر دن سے زیادہ ہے، رات ہی نفلی صلاۃ اور تہجد کا وقت ہے، رات ہی رب کے ساتھ تنہائی کا وقت ہے جس میں اخلاص کی اور ریاء ونمودسے سلامتی کی زیادہ امید ہے، رات ہی کی ایک گھڑی میں وہ مبارک لمحہ بھی آتا ہے جب رب کریم اپنے بندوں سے قریب ہوکر دنیا کے آسمان پر اتر کر ان کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے : کیا ہے کوئی مانگنے والا جسے میں عطا کروں ؟ کیا ہے کوئی سوال کرنے والا جسے میں دوں؟ کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگارجس کو مغفرت عطا کروں؟؟  ۔رات کو بستروں سے پہلو الگ رکھنا، شب بیداری کرنا اہل جنت کا امتیاز ہے، ارشاد ہے: ((تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ)) (السجدة: ١٦ (نیز ارشاد ہے: ((كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ)) (الذاريات:١٧)  قرآن مجید میں ایک اور مقام پر رات کو سجود وقیام میں گذارنے کو رحمٰن کے حقیقی بندوں کی علامت بتائی گئی ہے، ارشاد ہے: ((وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا)) (الفرقان:٦٣-٦٤ ) (رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گذار دیتے ہیں۔)

یاد رہے کہ پوری صلاۃ کے اندر قیام اور سجدے کی  دو حالت ایسی ہے جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہے اسی لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:  «أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ» «سب سے افضل صلاۃ وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے»۔   (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب أفضل الصلاة طول القنوت (کتاب :6 باب :22 حدیث :164 (756)) میں مروی ہے۔)

  امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ" اس حدیث میں قنوت سے بہ اتفاق اہل علم قیام مراد ہے"۔   (دیکھئے صحیح مسلم معہ شرح نووی ۳/۹۴/1257۔ )قیام ہی وہ حالت ہے جس میں اللہ کے مبارک کلام کی تلاوت کی جاتی ہے۔

 سجدے کی حالت کا پسندیدہ ہونا کئی احادیث  سے ظاہر ہوتا ہےجس میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کے اندر رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا  ہے: «أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ» «سب سے زیادہ اپنے رب سے قریب بندہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہےلہٰذا (اس حالت میں) زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو»۔ (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصلاة باب ما يقال في الركوع والسجود (کتاب :4 باب :42 حدیث :215 (482)) میں مروی ہے۔)

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا: ((وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ)) العلق:١٩ (سجدہ کر اور قریب ہوجا)۔ نیز وہ حدیث بھی سجدہ کے محبوب ہونے کی دلیل ہے جس میں ایک صحابی نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنت کے اندر رفاقت طلب کی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ» «زیادہ  سے زیادہ سجدے کرکے اپنے آپ پر میری مدد کرو»۔  (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصلاة باب فضل السجود والحث عليه (کتاب :4 باب:43  حدیث :226 (489)) میں مروی ہے۔)

اس تعلق سے اور بھی کئی احادیث ہیں۔

 ß  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے دین کی تکمیل کی ہے یعنی ان دنوں میں ہر نوع کی عبادت کو اکٹھا کردیا ہے، تکمیل دین وہ گراں قدر عطیہ ہے جس سے اہل دین کی تکمیل ہوتی ہے، ان کے اعمال وکردار اور اجروثواب کی تکمیل ہوتی ہے، حیات کاملہ نصیب ہوتی ہے، اطاعت وفرماں برداری میں لذت ملتی ہے، گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، مخلوقات کی محبت ملتی ہے، سنتوں کو فتح سے ہمکنار اور بدعتوں کو شکست سے دوچار ہونا ہوتا ہے، ایمان اور اہل ایمان کو طاقت وقوت ملتی ہے ، نفاق اور اہل نفاق  ذلت وپستی میں گرجاتے ہیں، تکمیل دین سے نفس امارہ پر ، شیطان لعین پر اور ناروا  خواہشات پر غلبہ نصیب ہوتا ہے، اللہ کی عبادت میں نفس پُرسکون ہوتا ہے، قرآن مجید کے اندر تکمیل دین کا اعلان بھی اسی عشرہ میں ہوا ہے، جس کی بنا پر یہودی ہم سے حسد کا شکار ہوگئے، ایک بار ایک یہودی عالم نے عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  سے کہا: آپ کی کتاب قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم یوم نزول کو عید بنالیتے، وہ آیت ہے: ((الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا)) المائدة: ٣  [آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا،اور تمھارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا] عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی ہے؟ جمعہ کے دن میدان عرفات میں نازل ہوئی ہے۔  (یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب التفسير باب سورة المائدة (کتاب:68 باب :5 حديث:4330) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب التفسير میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :54 حديث:3-(3017)۔)

یہاں قابل غور یہ ہے کہ دین کامل میں اضافہ کی گنجائش نہیں ، وہ خود فطری تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، اس واقعہ میں بھی اس آیت کا نزول جس اعتبار سے ہوا ہے وہ خود یوم عید بھی ہے اور مقام عید بھی، جمعہ کے دن ہفتہ کی عید ہے اور میدان عرفات کا اجتماع عظیم الشان سالانہ عید ہے۔

Ñ   ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی چوتھی فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا اتمام کیا ہے یعنی ان دنوں میں ہر قسم کی عبادت کو جمع کرکے روح کی غذا اور اس کی لذت کا سامان کردیا ہے، اتمام نعمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اللہ نے اسلام کے لئے اپنے بندوں کے سینے کھول دیئے، وہی سرزمین عرب جہاں یہودیت ونصرانیت اور مجوسیت ووثنیت کا غلغلہ تھا اسلام کا پرچم سربلند ہوا،ارشاد ہے: ((هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا)) (الفتح: ٢٨) (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہردین پر غالب کردے اور اللہ تعالی کافی ہے گواہی دینے والا)۔

اسی اتمام نعمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ حرم کا داخلہ مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا گیااور کفار ومشرکین کو حرم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

Ò  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی پانچویں  فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں ہر قسم کی عبادات  جمع ہیں، ان دنوں میں کلمۂ شہادت کے اقرار، تجدید ایمان اور کلمہ کے تقاضوں کی تکمیل کا بھرپور موقع ہے، ان دنوں میں صلاۃ پنجگانہ اور دیگر نفلی صلوات بھی ہیں، ان دنوں میں صدقہ وزکاۃ کی ادائیگی کا موقع بھی ہے، ان دنوں میں صوم کی عبادت بھی ادا کی جاسکتی ہے، یہ دن حج وقربانی کے دن تو ہیں ہی، البتہ حج وقربانی  کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف انھیں دنوں میں ادا کئے جاسکتے ہیں دیگر ایام میں نہیں، ذکرودعا اور تلبیہ پکارنے کے بھی یہ ایام ہیں۔

ہرقسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہوجانا یہ وہ شرف واعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے، اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک نہیں۔

Ó  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی چھٹی  فضیلت یہ ہے کہ یہ وہ ایام ہیں جن کا ایک ایک لمحہ ، ایک ایک منٹ اور سکنڈ انتہائی قیمتی ہے، ان دنوں میں اللہ رب العزت کی طرف سے اعمال  صالحہ کی شدید محبوبیت کا اعلان عام ہے، یہ وہ خصوصی پیشکش (اسپیشل آفر) ہے جو سال کے بقیہ دنوں میں حاصل نہیں ہے، یہ نفع کمالینے کا موسم ہے، یہ نیکیوں میں مقابلہ کرنے کا وسیع میدان اور سنہرا وقت ہے،  حدیث میں ہے: عَن ابْنِ عَبَّاسٍ  رضی الله عنه  قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ»  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عشرۂ ذوالحجہ میں کئے گئے عمل صالح اﷲ کو جس قدر زیادہ محبوب ہیں اتنا کسی اور دن میں نہیں، صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے دریافت کیا: حتی کہ جہاد فی سبیل اﷲ بھی اتنا پسندیدہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنا جان ومال لے کر نکلا لیکن کچھ بھی لے کر واپس نہیں ہوا»۔   (یہ حدیث صحیح بخاری میں كتاب العيدين باب فضل العمل في أيام التشريق (کتاب :19 باب :11 حدیث :926) میں نیز مسند احمد میں (حدیث : 1968) بہ سند صحیح مروی ہے، واضح رہے کہ مذکورہ الفاظ مسند احمد کے ہیں۔)

حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کے نیک اعمال سے بقیہ دنوں کے کسی عمل کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا حتی کہ جہاد سے بھی نہیں جس کے فضائل معروف ومشہور ہیں، نہ جانی جہاد سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ مالی جہاد سے، اور نہ بیک وقت دونوں جہاد سے اگر آدمی کی جان یا مال  کچھ بھی سلامت رہ گئے، البتہ جو شخص جان ومال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلےاور پھر کچھ بھی لے کر واپس نہ ہو ، سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور اپنی قیمتی جان اللہ کی راہ میں قربان کرکے شہید ہوجائے۔ یہی تنہا وہ شخص ہے جو ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک اعمال سے اپنا خزانہ معمور کرنے والے کا مقابلہ کرسکتا ہے،

ذرا غور کریں کہ ایسی ہمت اور ایسا موقع کس میں ہےکہ سارا جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردے؟؟ اس کے مقابلہ میں یہ کس قدر آسان ہے کہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے اس خصوصی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عشرۂ ذوالحجہ میں اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنا دامن مراد بھرلیا جائے۔!!

نیز حدیث میں ہے: عَنْ جابر  رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «أفضل أيام الدنيا أيام العشر». جابر رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «دنیا کے ایام میں افضل ترین ایام ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں»۔   (یہ حدیث مذکورہ الفاظ کے ساتھ مسند بزار (كشف الاستار 2/28، حدیث: 1128) میں ہے اور اسے علامہ البانی سے صحیح قرار دیا ہے۔ [صحیح الجامع الصغیر/حدیث: ۱۱۳۳])

Ô  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی ساتویں   فضیلت یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک دن عرفہ کا بھی دن ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: «مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنْ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ, وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِم الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟». «عرفہ کے دن سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کسی اور دن جہنم سے آزادی نہیں عطا فرماتا، اﷲ تعالیٰ قریب ہوتا ہے پھر ان(عرفہ میں ٹھہرے ہوئے لوگوں) کے ذریعہ اپنے فرشتوں سے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟»۔  (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الحج باب في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة (کتاب:15 باب:79 حدیث :436 (1348)) میں مروی ہے۔)

نیز ارشاد ہے : «صَوْمُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَی اﷲِ أَن يُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَہُ»۔ «صوم عرفہ سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ سال گذشتہ اور آئندہ کا کفارہ ہوجائے گا»۔ (یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس (کتاب :13 باب :۳۶ حدیث :۱۹۶ (1162)) میں مروی ہے۔)

          واضح رہے کہ حدیث میں مذکور فضیلت حاجیوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے ہے۔ جو حاجی میدان عرفات میں موجود ہوں انھیں افطار سے (یعنی بلا صوم) رہنا چاہئے جیسا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے (متفق علیہ) تاکہ ان میں ذکر و دعا کے لئے قوت رہے۔

حاجیوں کے لئے عرفہ میں ٹھہرنا ہی حج کا رکن اعظم ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: «الْحَجُّ عَرَفَةُ». «حج عرفہ ہی ہے»۔ (اس حدیث کو ابوداود(كتاب المناسك, باب من لم يدرك عرفة, کتاب:۵، باب:۶۹، حدیث:۱۹۴۹) ترمذی (كتاب الحج, باب ما جاء فيمن أدرك الإمام بجمع فقد أدرك الحج, کتاب:۶، باب:57، حدیث:814)، نسائی (كتاب مناسك الحج, باب فرض الوقوف بعرفة, کتاب:24، باب:203، حدیث:3016) اور ابن ماجہ (كتاب المناسك, باب من أتى عرفة قبل الفجر, کتاب:25، باب:۵۷، حدیث:3015) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: «خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ, وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ».  «عرفہ کے دن کی دعا تمام دعاؤں سے بہتر ہے، اور سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء نے کہا ہے وہ یہ ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ, وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. (اﷲ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، ملک اسی کا ہے، تعریفیں اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)» ۔ (اس حدیث کو امام مالک [موطا، حدیث:500] اور امام ترمذی [کتاب الدعوات، باب فی دعاء یوم عرفہ، حدیث:3509] وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ [حدیث:1503] میں اسے ثابت اور صحیح وضعیف ترمذی [حدیث:3585] میں حسن قرار دیا ہے۔)

Õ  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی آٹھویں   فضیلت یہ ہے کہ ان کا دسواں اور آخری دن یوم النحر    ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:  «إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ». «بے شک اللہ تعالی کے یہاں تمام دنوں سے عظیم ترین دن یوم النحر (قربانی کادن) ہے، پھر اس کے بعد والادن»۔  (اس حدیث کو امام ابوداود [كتاب المناسك, باب في الهدي إذا عطب قبل أن يبلغ، کتاب:5، باب:19، حدیث:1765] اور امام احمد[حدیث:19098] نے روایت کیا ہے اور اسے امام ابن حبان[صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، حدیث:2811] اور علامہ البانی نے [الارواء، حدیث:1958، صحیح الجامع:1944، صحیح ابوداود، حدیث:1549] صحیح قرار دیا ہے۔)

یوم النحر وہ دن ہے جس میں حج کے بیشتر اعمال انجام دیئے جاتے ہیں، اس دن جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارنا ہے، قربانی کرناہے، سرکے بال کٹوانا یا منڈاناہے، طواف زیارت اور سعی کرنی ہے، ایسے ہی اس دن سارے مسلمان بقرعید مناتے ہیں، عید کی دورکعتیں پڑھتے، قربانی کرتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔

بہرکیف عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل بہت ہیں ، ایک مسلمان کو چاہئے کہ ان مبارک دنوں کو غنیمت سمجھے، انھیں یوں ہی ضائع ہونے سے بچائے، ان میں ہر نیکی میں سبقت لے جانے کی تگ ودو کرے۔