الخميس، 31 مارس 2016

کوکن تحریری مناظرہ بعنوان : موت رسول ﷺ (دوسری قسط)













کوکن تحریری مناظرہ بعنوان : موت رسول ﷺ   (دوسری قسط)
بریلوی موقف
ان کی تحریر کا عکس دیکھ لیا جائے۔
سلفی موقف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین ۔ اما بعد:
محترم ! آپ نے جوابی مراسلے میں نزاعی مسئلہ کے علاوہ کچھ ایسے بنیادی امور چھیڑ دئیے ہیں جن کی وضاحت نہایت ضروری ہے لہذا ترتیب وار ایک ایک کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
۱۔ آپ نے مجھ پر جھوٹا ہونے اور غلط حوالہ دینے کا الزام لگایا ہے کیونکہ میں نے سورہ مریم آیت نمبر 15 میں (وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا) کا ترجمہ  (اورجس دن مردہ اٹھایا جائے گا۔) آپ کے بقول غلط نقل کیا ہے۔  اس کا جواب ہے کہ مقام سونس (کھیڑ، رتنا گیری)  میں کنز الایمان کا وہ نسخہ آپ کو دکھایا جاچکا ہے جس میں ہو بہو یہی لفظ تھا  خود آپ جو کنزالایمان لائے تھے اس میں بھی یہی لفظ تھا اور گاؤں کی مسجد کے کنز الایمان میں بھی یہی ترجمہ تھا۔
آپ نے ایسی بہتان ترازی کرکے اپنے  آپ کو پوری طرح ننگا کرلیا ہے  اور نہایت ہی بدترین بددیانتی کا ارتکاب کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آپ کسی سنجیدہ علمی بحث وگفتگو کے لائق نہیں ہیں کیونکہ اس میں ہر ہر قدم پر امانت ودیانت کی ضرورت ہے۔
دراصل آپ کے لئے جھوٹا کہنے اور غلط حوالہ دینے کے سوا چارہ ہی کیا تھا کیونکہ ترجمہ صریحاً غلط ہے  (حیاً) کے لفظ کا ترجمہ (مردہ ) کیا گیا ہے جو اصل لفظ کی بالکل ضد ہے جیسے اجالے کے مقابلے میں اندھیرا۔  اور یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں قطعاً درست نہیں ہوسکتا ہے۔
غلطی واضح ہوجانے کے بعد آدمی کے سامنے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو اپنی غلطی تسلیم کرے  اور یا اپنی غلطی پر بضد ہوجائے  اور سرکشی وطغیانی پر آمادہ ہوجائے۔ پہلی راہ حق پسندوں کی ہے ، اللہ سے ڈرنے والوں کی ہے ،  جس کو آپ اور آپ کے ساتھی اپنانے سے رہے  الا من رحم اللہ ، آپ کا طریقہ تو یہ ہے: وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا .
یاد رکھئے کہ ہم سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے ، کسی کی بے جا وکالت وہاں سوائے نقصان کے  فائدہ نہیں دے گی۔  دوسرے کو الزام سے بچانے کے لئے خود ملزم بن جائیں یہ کون سی دانش مندی ہے!!
۲۔ آنجناب فرماتے ہیں:" اللہ تعالی کے قول سے دلیل دینا  (معاذ اللہ)  اپنے کو خالق ومالک سے برابر کرنا ہے  جو کفر درکفر ہے"۔
افسوس   ؏        ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے           خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
اگر اللہ کے قول سے دلیل دینا کفر ہے (معاذ اللہ) تو  پھر بھلا کس کے قول سے دلیل دینا کفر نہیں ہے؟  اللہ کے قول سے دلیل دینے میں اللہ کی برابری ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے دلیل دینے میں نبی ورسول کی برابری ہوگی  اور اس طرح بڑی آسانی سے آپ نے قرآن وحدیث اور کتاب وسنت پر ہاتھ صاف کردیا۔  اور جب یہ دونوں چیزیں دلیل نہ ہوں گی تو پھر ہرقسم کی من مانی کی پوری چھوٹ ہوگی۔ آپ کا معاملہ تو بالکل شاعر کے اس قول کی طرح ہے ؏      
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ      کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
شاید اسی غلط فہمی کی وجہ سے تین صفحی مراسلہ میں کہیں بھی آپ نے اللہ تعالی کے کسی قول کو دلیل نہیں بنایا ہے۔ ہاں! آپ نے تیسرے صفحہ میں پوری آیت تو نہیں البتہ ایک ٹکڑا  (إِنَّكَ مَيِّتٌ)ذکر فرمایا ہے اور وہ بھی بطور دلیل نہیں بلکہ برائے تاویل۔
البتہ حیات شہداء سے متعلق آیت کے مفہوم سے آپ نے حیات انبیاء پر استدلال کیا ہے ، شاید آپ کے نزدیک قرآن کے لفظ اور منطوق سے استدلال کفر ہو البتہ اس کے مفہوم سے استدلال کفر نہ ہو بلکہ جائز اور درست ہو؏  بریں عقل ودانش بباید گریست
ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے تدبر وتفکر کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے غور کیجئے کہ آپ کے اس فاضلانہ قاعدہ کی زد میں کون کون آتے ہیں۔ اگر مراسلہ کی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ان واقعات کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے رکھ دیتا جس میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے قول سے دلیل دیا ہے، اسی طرح آپ کے خلفائے راشدین ، عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کیا ہے، نیز تابعین وتبع تابعین، ائمہ اربعہ ودیگر مجتہدین اور محدثین نے بھی ہزاروں مسائل میں اللہ اور اللہ کے رسول کے قول سے دلیل دیا ہے۔  آپ کے فاضلانہ قاعدہ کی رو سے تمام لوگ (معاذ اللہ) نہ صرف کفر بلکہ کفر درکفر کے مرتکب ہوچکے ہیں ؏ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
بھلا بتائیے کہ اللہ کا قول اگر دلیل نہیں تو قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا فائدہ کیا ہے؟ کنزالایمان کی صورت میں اس کے ترجمہ کی ضرورت کیا تھی؟
حقیقت یہ ہے کہ کتاب وسنت سے اعراض منافقین کا طریقہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:  {وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا } [النساء: 61] اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: {وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (48) وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ (49) أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [النور: 48 - 50] اور جب بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے، (48) اور اگر ان میں ڈگری ہو (ان کے حق میں فیصلہ ہو) تو اس کی طرف آئیں مانتے ہوئے (49) کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا شک رکھتے ہیں کیا یہ ڈرتے ہیں کہ اللہ و رسول ان پر ظلم کریں گے بلکہ خود ہی ظالم ہیں۔
اس کے برخلاف اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی بات پر فوراً کان لگاتے ہیں اور اطاعت بجا لاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :  {إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } [النور: 51] مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔
۳۔ آنجناب فرماتے ہیں : "رب کا خطاب اپنے محبوب بندوں کے لئے جس طرح  سے ہو اور انبیاء کا شان انکسار جس انداز کا بھی ہو ہمارے لئے ہرگز لائق استدلال وقول نہ ہوگا کیونکہ شان باری کی عظمت اور اس کا اپنے محبوب بندوں کو جس بھی انداز سے مخاطب کرنا صرف اسی کے شان وعظمت کے مناسب ولائق ہے"۔
یہ قاعدہ کہاں سے آیا؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے ذریعہ کسی آیت یا حدیث کے قابل استدلال اور ناقابل استدلال ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ آخر وہ آیت بھی تو رب کا اپنے محبوب بندے سے خطاب ہی ہے جس کے ذریعہ آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حاضر وناظر ہونا ثابت کرتے ہیں ، آخر وہ لائق استدلال کیوں ہے اور دوسرے خطابات لائق استدلال کیوں نہیں؟
۴۔ آنجناب فرماتے ہیں: "انبیاء کرام کی زندگیاں جسمانی، حقیقی ، دنیاوی ہے  یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ان کی بیویاں دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے"۔
آنجناب نے  محولہ بالا عبارت میں انبیاء کی دو خصوصیات ( ترکہ کی عدم تقسیم اور بیویوں سے نکاح کی حرمت) کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی علت انبیاء کی جسمانی حقیقی دنیاوی زندگی قرار دی ہے لیکن آپ نے اس کی کوئی دلیل نہیں دی کہ ان دونوں خصوصیات کی علت وہی ہے جو آپ فرمارہے ہیں۔
پہلی خصوصیت سے متعلق حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ۔
ترجمہ : ہم جماعت انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں صدقہ ہے۔
یہ حدیث بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی، موطا اور مسند احمد وغیرہ میں مختلف مقامات پر وارد ہے۔ حدیث کے الفاظ میں یہ بات کہیں ذکر نہیں کہ انبیاء چونکہ موت کے بعد بھی دنیاوی زندگی جیتے ہیں اس لئے ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوسکتا۔  جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت عباس  رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے میراث میں اپنا حصہ طلب کرنے آئے تھے  انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سناکر جواب دیا تھا ۔ اگر بات وہ ہوتی جس کا آپ کو دعوی ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرح کیوں نہیں کہتے کہ تمھیں معلوم نہیں کہ انبیاء کی زندگی موت کے بعد بھی دنیاوی ہوتی ہے اور ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا مگر کسی بھی حدیث میں اس طرح کے الفاظ نہیں ملتے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کی وفات کے بعد حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی میراث طلب کرنے گئے تھے تو کیا یہ دونوں صحابیٔ رسول اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی ہے نیز خلیفۂ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اس غلط فہمی کا ازالہ نہیں کیا اور کہیں یہ نہ فرمایا کہ آپ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں۔
دوسری خصوصیت سے متعلق قرآن مجید کی آیت اس طرح ہے: {وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا } [الأحزاب: 53] اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔
اس آیت کے تحت کنزالایمان کے حاشیہ میں ہے۔: "کیونکہ جس عورت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد فرمایا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی۔ اسی طرح وہ کنیزیں جو باریاب خدمت ہوئیں اور قربت سے سرفراز فرمائی گئیں وہ بھی اسی طرح سب کے لئے حرام ہیں، اس میں اعلام ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی عظمت عطا فرمائی تھی اور آپ کی حرمت ہر حال میں واجب کردی"۔
اس حاشیہ میں کہیں ذکر نہیں کہ نکاح کی حرمت موت کے بعد زندہ رہنے کی وجہ سے ہے ۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ} [الأحزاب: 6] یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں۔
کنزالایمان کے حاشیہ میں ہے : "تعظیم وحرمت میں اور نکاح کے ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں "۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے نکاح کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ وہ امت کی مائیں ہیں اور ان سے نکاح اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اس وجہ سے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی طرح باحیات ہیں۔
کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ اولیاء بھی چونکہ آپ کے نزدیک مرنے کے بعد دنیاوی زندگی ہی کی طرح زندہ ہیں ان کا ترکہ بھی تقسیم نہیں کیا جائے گا اور ان کی ازواج سے بھی نکاح حرام ہوگا؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ اور کیسے کسی کے بارے میں معلوم ہوگا کہ یہ ولی ہے اور اس کا ترکہ تقسیم کرنا اور اس کی بیوی سے نکاح کرنا درست نہیں ؟ ولیوں کی پیدائش کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے یا آئندہ بھی جاری رہے گا؟ پرانے اولیاء میں سے کس کس کے ساتھ ایسا کیا گیا کہ ان کی حیات بعد الممات کی وجہ سے ان کا ترکی تقسیم نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی بیوی سے نکاح کیا گیا؟
شہداء بھی  مردہ نہیں  بلکہ زندہ ہیں تو کیا ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگاکہ ان کی بیویوں سے نکاح حرام اور ان کی میراث تقسیم نہیں ہوگی؟ جب کہ ایسے متعدد مستند ومعتبر واقعات حدیث وتاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں جن سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ عہد رسالت میں کئی صحابہ کرام کی شہادت کے بعد ان کی بیویوں نے دوسرے نکاح کئے ہیں۔
اگر یہ غلط اور حرام ہے تو ان صحابیات رضی اللہ عنہن کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو اس پر نہیں ٹوکا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تقریر فرمائی۔
۵۔ مراسلہ کے اختتام پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ حیات انبیاء سے متعلق جو حقیقت ہے اس کی وضاحت کردیں:۔
دنیا قیدخانہ ہے اور موت اس سے نکلنے کا دروازہ ۔ موت ہی سے مومن کی ترقی ہے۔ اسی لئے نبی، ولی، خاص وعام سب پر موت آتی ہےاور وہ اس دروازے سے نکل کر اللہ کے تیار کئے ہوئے مدارج کے حصول کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ شہید اور نبی تو درکنار کوئی مومن بھی نہیں چاہتا کہ ایک دفعہ اس قیدخانے سے نکل کر پھر اسی قیدخانے میں واپس آجائے۔
آپ نے (فنبی اللہ حی یرزق ) کی جو حدیث پیش کی ہے ، اس میں حیات برزخی کا ذکر ہے ، دنیاوی کا نہیں، جیسا کہ آپ باور کرانا چاہتے ہیں۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ شہداء کے بارے میں قرآن مجید میں ہے : {بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] کہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں۔ بھلا انبیاء جو شہداء سے افضل ہیں ، ان کی زندگی دنیوی کیسے ہو سکتی ہے؟ شہداء تو اپنے رب کے پاس برزخ میں زندہ ہیں اور انبیاء رب کے پاس زندہ نہ رہ کر دنیاوی زندگی میں مقید ہوں؟ دنیوی زندگی کوئی کمال ہے جو انبیاء قبر میں بھی دنیا کی طرح زندہ ہوں ۔ آپ کا یہ دعوی کہ ائمہ اور صحابہ سب اسی کے قائل تھے غلط ہے۔ کیونکہ اگر صحابہ کرام کو اس کا علم ہوتا تو وہ کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں نہ چھوڑتے بلکہ باہر نکال لیتے ۔ ذرا بتائیے کہ موت سے لے کر تدفین تک تقریباً ۳۲ گھنٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک باہر رہی ، اس عرصہ میں آپ زندہ رہے یا مردہ  ؟ کیا آپ کو زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا؟ اگر زندہ نہیں دفن کیا گیا تو کب اور کیسے زندہ ہوئے؟ اگر آپ کو باہر ہی رکھا جاتا ، دفن نہ کیا جاتا تو کیا پھر بھی آپ زندہ ہو جاتے ؟ یا اگر اب نکال لیا جائے تو باہر آ کر آپ زندہ رہیں گے یا مردہ ہو جائیں گے؟ آپ سوچیں کیا اس زندگی کو دنیوی زندگی کہیں گے کہ باہر ہوں تو مردہ اور قبر میں جائیں تو زندہ؟
بخاری شریف میں ہے کہ ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں جب حجرے کی دیوار گرگئی تو ایک قدم ننگا  ہوگیا ۔ اکثر کا خیال تھا کی یہ قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے لیکن حضرت عروہ نے کہا کہ یہ قدم حضرت عمر کا ہے ۔ اس وقت وہ تینوں پیارے اسی طرح پڑے تھے جیسے دفن کئے گئے تھے ، دنیوی زندگی کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا ، اگر اس وقت بھی دنیوی زندگی کے کچھ آثار نظر آتے تو پہلی صدی تھی وہ لوگ ضرور باہر نکال لیتے ۔
خیر القرون کا عقیدہ یہ ہرگز نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں بلکہ وہ آپ کی برزخی زندگی کے قائل تھے اور یہی حق وراستی ہے کہ آپ کی زندگی شہداء سے اکمل وافضل برزخی اور حقیقی ہے ۔ حقیقی کا مطلب دنیاوی ہرگز نہیں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
وما علینا الا البلاغ
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
۱/۵/۹۹