الجمعة، 25 ديسمبر 2015

کوکن تحریری مناظرہ بعنوان : موت رسول ﷺ (پہلی قسط)

کوکن تحریری مناظرہ بعنوان : موت رسول ﷺ   (پہلی قسط)



بریلوی موقف
786/92
ہر قرآنی آیت کے معنی اور مطلب سمجھنے کے لئے اس کا شان نزول معلوم کیا جائے ([1])پھر اس کے مخاطبین  کو معلوم کیا جائے آیت "انک میت وانہم میتون" کو حق وصداقت ومحبت کی نگاہ سے دیکھنے کے لئے صرف لفظی موافقت سے لفظی ترجمہ کرنا کافی نہ ہوگا  جیسے آپ کسی مزدور کے اپنے  گھر آنے کے بعد کہتے ہیں بیٹھو اوراگر کوئی معزز مہمان آئے تو کہتے ہیں تشریف رکھئے حالانکہ دونوں کا مقصد صرف یہ کہنا ہے بیٹھیں پھر بھی غلام تھا تو کہا بیٹھو اور مہمان معزز تو کہا تشریف رکھو۔ لہذا یہاں اس طرح آپ لغوی طریقہ پر سمجھیں۔
شرعا موت کی دو قسم ہے([2]
 لہذا اب کوئی جاہل  ہی مہمان وغلام کو برابر القاب سے پکارے گا اور دونوں کے لئے بیٹھو استعمال کرے گا جس سے اس کی کم عقلی اور بدتہذیبی ظاہر ہوگی۔تو اب انصاف کا آئینہ لے کر دیکھو رسول اکرم اور کفار ومشرکین کیا ایک  طرح ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لفظ سے پکارا جائے کیونکہ میت سے رسول مراد ہیں اور میتون سے رسول اکرم  کا برا چاہنے والے کفار ومشرکین  ہیں۔یہ برابری معاذاللہ جو اپنے ساتھ ثابت کرتے ہیں وہ کفار  کے ساتھ بھی ثابت کریں گے۔معاذ اللہ ہمارے یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا مرتبہ ہم بندوں سے کیا سارے مخلوقات سےبرتر وافضل ہے۔ پھر اگر نفس  (صرف) موت آنے میں اگر چہ برابر مان لیا جائے یعنی روح کا جسم سے الگ ہوجانااوردنیا کی نظر میں مردہ قرار دے دینا تو اس معنی میں برابری  مگر شہدا کو قرآن زندہ کہہ رہا ہے وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (جو اللہ کے راہ قتل کئے گئے انھیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھ سکتے)۔تو انبیا ءکرام اور اس میں افضل الانبیاء تو بدرجہ اولی زندہ ہیں لہذا ان کی موت کو موت کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا۔اور قرآن کی آیت میت کا معنی حقیقی نہ مراد لے کر معنی مجازی یعنی انتقال کرنا وہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف یعنی حیات دنیا سے حیات اخروی کی طرف جانا اور یہ موت نہیں جس میں انسان کا جسم بے حس وحرکت ہوجاتا اور وہ ہر طرح کے تصرف سے عاجز ہوجاتا ہے بلکہ انبیاء کرام بعد موت بھی تصرفات کرتے ہیں سنتے ہیں سلام کا جواب دیتے آنے جانے والوں کو اور لوگوں کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں جس پر احادیث وواقعات شاہد ہیں  اور یہ انبیاء کو موت آنا فقط ایک آن لمحہ کے لئے ہوگا پھر وہ ہمیشہ کے لئے اپنی قبروں میں زندہ رہیں گے اس لئے مستقبل کا اعتبار کرکے انتقال ترجمہ کیا گیا
الحاصل- لہذا جب حقیقت کے اعتبار سے صرف رب تبارک وتعالی ظاہرا دونوں کے موت کا پتہ بتا رہا ہے اور بعد اس کے دونوں کے مرنے میں  بہت بڑا فرق ہے تو اگر مستقبل کے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے اس طرح ترجمہ کیا گیا اور ایک لفظ کا معنی انتقال کرنا اور دوسرے کا معنی مرنا کیا گیا اور کلام عرب میں ایسا بہت زیادہ ہوتا ہے کہ ایک ہی قسم کے دو لفظوں کا معنی دو کیا جاتا ہے اور ہر ایک ظاہری مطلب اگرچہ ایک ہوتا ہے مگر حقیقتا بہت بڑا فرق ہوتا ہے  تو اب ایک عقل سلیم رکھنے والا شخص ہرگز انبیاء کے سلسلہ میں میت کا معنی انتقال کرنے پر ہرگز اعتراض نہیں کرے گا اور رسول کی دشمنی کو ظاہر نہ کرے گا اور ایک محب رسول کی عقیدت کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا اور ایک عام بشر اور رسول میں برابری پیدا نہ کرے گا اور مسئلہ مسئولہ میں تو افضل البشر والانبیاء اور کافروں کی برابری کا دعویدار ہے۔  واللہ اعلم بالصواب فقط  (دستخط  غیرواضح)


سلفی موقف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔  أما بعد ۔
آنجناب فرماتے ہیں :" انبیاء کی موت کو موت کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا۔ "
آئیے ہم اللہ تعالی کے کلام مقدس قرآن مجید کی روشنی میں آپ کے اس دعوی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہم نے آیات کے ترجمے "کنز الایمان" سے نقل کئے ہیں۔
سورہ بقرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ (133)
ترجمہ: بلکہ تم میں کے خود موجود تھے جب یعقوب ؑ کو موت آئی  ۔
سورہ مریم میں یحیی علیہ السلام کے تذکرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :  وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا (15)
ترجمہ: اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اورجس دن مردہ([3]) اٹھایا جائے گا۔
اور اسی سورہ میں عیسی علیہ السلام کے تذکرہ میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (33)
ترجمہ: اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں۔
حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں سورہ بقرہ میں فرمایا:  فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ (259)
ترجمہ: تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا۔
سورہ سبا میں اللہ تعالی نے سلیمان علیہ السلام سے متعلق فرمایا:  فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ  (14)
ترجمہ: پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا جنوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی،
یہ چند آیات ہیں جن میں انبیاء کے لئے موت کا لفظ استعمال ہوا ہے  ([4]) اس طرح کی اور  آیات بھی  ہیں اور بکثرت احادیث ہیں۔ اختصار کے پیش نظر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ انبیاء کے لئے موت کا لفظ استعمال کرنے سے اگر رسول کی دشمنی ظاہر ہوتی ہے اورمحبت رسول کی عقیدت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور یہ کم عقلی اور بدتہذیبی کی بات ہے تو ذرا آپ غور فرمائیں کہ اللہ تعالی سے بڑھ کر انبیاء کے شرف وعظمت اور رتبہ وکمال کو کون سمجھنے والا ہوسکتا ہے ۔ یا مناسب الفاظ کے انتخاب میں اللہ تعالی سے بڑھ کر کس کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔
آنجناب نے انبیاء کے لئے موت کے لفظ کا استعمال صرف اس وجہ سے نادرست قراردیا ہے کہ اس سے دیگر انسانوں اور کفار ومشرکین کی برابری لازم آتی ہے مگر کیا آپ ایسا کرنے کی زحمت کریں گے کہ ہر اس چیز کا انکار کردیں جس سے آپ کے فہم اور منطق کے مطابق برابری لازم ہوتی ہو۔  اللہ کے رسولوں کے لئے آپ "زندہ" کا لفظ بھی استعمال نہ کریں کہ یہ بھی دوسروں کے لئے استعمال ہوتا ہے کھانے پینے اور پہننے کا لفظ بھی استعمال نہ کریں کہ یہ بھی دوسروں کے لئے استعمال ہوتا ہے وھلم جرا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی لفظ کے اقرار اور انکار کا پیمانہ کتاب وسنت کی دلیل ہے آپ کی عقلی منطق نہیں۔ کتاب وسنت سے جس کا اقرار ثابت ہو اس کا انکار جرم  اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار جرم۔
آپ نے فرمایا ہے :" شرعا موت دو قسم ہے"۔ کیا کتاب وسنت سے آپ اس کی کوئی دلیل پیش کرسکتے ہیں؟  اور اگر یہ تقسیم لغوی ہے تو لغت سے دلیل پیش کرنا آپ کا فرض ہے۔
  حقیقت یہ ہے کہ موت کی نہیں بلکہ موت کے بعد برزخی زندگی کی کئی قسمیں ہیں اور انھیں قسموں کو آپ موت کی قسم قرار دے رہے ہیں۔
 ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ آپ نے موت کی ایک قسم (یعنی روح کا جسم سے نکلنا) انبیاء کے لئے قرار دی ہے اور دوسری قسم (یعنی روح کا جسم میں تصرف چھوڑ دینا) عوام کے لئے ہے  ذرا یہ بتلائیے کہ اولیاء کرام کس فہرست میں آتے ہیں؟ انبیاء کی یا عوام کی؟ اور ان کی موت کس قسم کی ہوتی ہے؟  اس کا جواب خوب سوچ سمجھ کر دیجئے کہیں اولیاء کی محبت وعقیدت اور احترام والفت کو ٹھیس نہ پہنچنے پائے۔
لفظی تک بندیاں، منطقی نکتہ آفرینیاں اور جذباتی مغالطہ انگیزیاں زیادہ دنوں تک مبتلائے فریب نہیں رکھ سکتیں، علمی حقائق کا نور آتے ہی جہالت کے تمام اندھیرے کافور ہوجاتے ہیں۔  جاء الحق وزھق الباطل إن الباطل کان زھوقا۔
عبدالہادی عبدالخالق مدنی



([1])شان نزول : کفار ومشرکین اور رسول سے دشمنی رکھنے  یہ چاہتے تھے کہ آپ کا نتقال ہوجائے پھر ہم آپ پر ہنسیں کہ بہت بڑے بنتے تھے معاذ اللہ پھر بھی موت آگئی پھر وہ  ہم موت کے بعد ان پر ہنسیں گے اور دشمن کی تکلیف پانے پر ہنسنا چاہتے تھے تو یہ آیت اتری کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں تم  وہ سب کو یہ حالت طاری ہوگی۔ (بریلوی)
([2] ) موت کی دو صورتیں ہیں  ۔ روح کا جسم سے الگ ہونا اور روح کا جسم میں تصرف چھوڑ دینا پرورش ختم کردینا۔  انبیاء کی موت پہلے معنی میں ہے یعنی دفن کفن سب کچھ ہوتا ہے مگر  ان کی روح ان کے جسم کی پرورش کرتی رہتی ہے اور تصرف کرتی رہتی ہے اسی لئے ان کے جسم گلتے نہیں اور زائرین کو پہچانتے ہیں  ان کا سلام سنتے اور ان کی فریاد سنتے ہیں (بریلوی)
([3])  کنز الایمان میں اسی طرح ترجمہ کیا گیا ہے۔ (عبدالہادی مدنی)
([4]) دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب کنز الایمان اعلی حضرت احمد رضا خان صاحب نے بھی انبیاء کے لئے موت اور مرنا وغیرہ ہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (عبدالہادی مدنی)