الجمعة، 12 يوليو 2013

احسان کا بدلہ

احسان کا بدلہ
عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے : اتق شر من أحسنت إليه (جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے اس کے شر سے بچ کے رہنا)۔
بعض لوگوں نے اسے حدیث بھی کہا ہے لیکن اس کا حدیث ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے۔ امام  عجلونی نے اپنی کتاب کشف الخفا ء ومزیل الالباس عما اشتھر من الاحادیث علی السنۃ الناس میں اس کے بارے میں لکھا ہے: لا أعرفه [1/43/86]
            حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی غلط مقولہ ہے۔  صحیح انسانی فطرت ، عقل سلیم اور کتاب وسنت کی سچی  تعلیمات کے صریح خلاف ہے۔  اس طرح کے چند برخود غلط مقولوں یا اس پر مبنی حکایات اور قصوں کی بنا پر کتنے لوگ ہیں جو حسن سلوک، بہتر رویہ اور احسان کا معاملہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
یہ مقولہ  ہم سے کہتا ہے : "پھول کی کاشت نہیں کرنا ورنہ کانٹوں کی فصل اگے گی"۔ یا "پھول بووو گے تو خار کاٹو گے"۔ ظاہر ہے کہ کوئی شریف النفس اور ہوشمند وخردمند انسان اسے تسلیم نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے مقولوں اور اس پر مبنی قصوں نے کتنے لوگوں کو دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرکے اجر وثواب کمانے سے محروم کردیا  یا بہتر سلوک کرنے کے بعد بدگمانی کا شکار بنادیاحالانکہ اصل فطرت اور عام انسانی رویہ میں لوگ بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی سے دیتے ہیں۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ چند بدخصلت ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو بھلائی کا بدلہ برائی سے دیں، احسان فراموشی کریں، ناشکری کریں لیکن ان کی تعداد الحمد للہ کم ہے۔  مگر ایسے چند افراد کی بنا پر ایسے مقولے اور قصے بلاتنبیہ نشر کرنا کیا اس کا محرک نہیں ہوگا کہ لوگ بھلائی کرتے ہوئے جھجھک محسوس کریں گے، یا احسان کرنے سے گریز کریں گے،  یا جس پر احسان کیا ہے اس سے متعلق بدگمانی کا شکار ہوکر اس کی جانب سے کسی برائی کے انتظار میں رہیں گے۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے اور بیگانے کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ برائی کرے تب بھی ہم اس کے ساتھ اپنے رویہ میں تبدیلی نہ کریں۔  حدیث ہے :  و لا تخن من خانك [السلسلة الصحيحة" 1 / 708] [جو تمھارے ساتھ  خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہیں کرنا]۔
انسان تو کیا ہرمخلوق کے ساتھ اسلام نے ہمیں عمدہ رویہ اور حسن سلوک اپنانے کی تلقین کی ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص پیاسے کتے کو پانی پلانے کی بنا پر جنت میں داخل کردیا گیا۔[ صحيح البخاري (1/ 45) وصحيح مسلم (4/ 1761)]

جہاں تک نیکی کے بدلہ کی بات ہے تو ایک صاحب ایمان اللہ سے بدلہ کی امید رکھتا ہے کسی مخلوق سے نہیں ۔ {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا} [الإنسان: 8، 9] [اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو۔ ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری۔