الاثنين، 1 يوليو 2013

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم

الخلفاء الراشدون


خلفائے راشدین
رضی اللہ عنہم

اعداد:
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب




خلیفۂ اولابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

نام ونسب:
            ابوبکر عبد اﷲ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر التیمی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب سے مل جاتا ہے ۔ آپ کی ماں ام الخیر سلمی بنت صخر ہیں۔
پیدائش :
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے تین سال بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی ۔
نمایاں اوصاف:
             ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امیر گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ غریبوں کا بوجھ اٹھاتے۔ فقیروں کو کھانا کھلاتے۔ نسب کے ماہر تھے۔ بااخلاق تاجر تھے۔ نہایت شریف اور معزز تھے۔ شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج سے آپ کا مزاج ہم آہنگ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت سے پہلے ہی آپ دونوں میں الفت ومحبت تھی۔
 قبول اسلام :
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوں ہی اپنی نبوت ورسالت کا اعلان فرمایا سب سے آگے بڑھ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی تصدیق کی اور مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ مردوں میں سب سے پہلے آپ نے ہی اسلام قبول کیا ہے۔
 ازواج واولاد:
 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں، جن سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئے۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
            ١۔ قتیلہ بنت عبد العزی ، جن سے عبداﷲ اور اسماء پیدا ہوئے۔
            ٢۔أم رومان بنت عامر، جن سے عبدالرحمن اور عائشہ پیدا ہوئے۔
            ٣۔أسماء بنت عمیس ، جن سے محمد پیدا ہوئے۔
            ٤۔حبیبہ بنت خارجہ، جن سے ام کلثوم پیدا ہوئیں۔
خلافت:
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپ دو سال تین ماہ دس دن تک خلیفہ رہے۔
کارنامے:
             ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کارنامے نہایت عظیم اور تاریخ کا سنہرا باب ہیں ۔ جن میں سے کچھ کو ہم ذکر کرتے ہیں:
            ١۔  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت سے بڑے بڑے صحابہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ عثمان ،طلحہ،زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہم جو سابقین اولین اور عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں آپ کی دعوت سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔
            ٢۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے مشہور دولت مند تاجر تھے۔ جس وقت اسلام لائے چالیس ہزار دینار کے مالک تھے۔ آپ نے اپنا تمام مال اﷲ کی راہ میں لگادیا۔مسلمان ہوجانے والے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا اور انھیں ان کے آقاؤں کے ظلم وزیادتی سے چھٹکارا دلایا ۔ بلال رضی اللہ عنہ کو آپ ہی نے خرید کر آزاد کیا تھا۔
            ٣۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اٹھنے والے تمام فتنوں کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت شجاعت وپامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ لشکر اسامہ کو روانہ کیا ۔ مدعیان نبوت اور مرتدین کی سرکوبی کی۔
            ٤۔ قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام فرمایا۔
            ٥۔ شام اور فلسطین فتح کرنے کے لئے لشکر روانہ فرمائے۔
 لشکر اسامہ کی روانگی:
            غزوۂ موتہ میں شہید ہونے والے صحابۂ کرام زید بن حارثہ اور ان کے ساتھیوں کا رومیوں سے انتقام لینے کے لئے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی امارت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج ترتیب دی تھی ، لیکن ابھی یہ فوج نکلنے کی تیاریوں میں ہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا انتقال ہوگیا اور عرب میں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوگیا ۔ اندرونی حالات کی سنگینی کے پیش نظر بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ اس لشکر کو روک لیا جائے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کی تنفیذ میں تاخیر گوارہ نہ کی۔ انھیں فورا ًشام کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مرتد قبائل پر رعب قائم ہوگیا اور وہ کہنے لگے کہ اگر ان کے پاس قوت نہ ہوتی تو وہ اس عظیم لشکر کو عرب کی اندرونی بغاوت سے بے خوف ہوکر روم کی طرف نہ بھیجتے۔
 مرتدین کی سرکوبی:
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کی خبر عام ہوتے ہی بہت سارے قبائل اسلام چھوڑ کر مرتد ہوگئے اور کچھ نے زکاة دینے سے انکار کردیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اﷲ کی قسم اگر وہ ایک رسی (یا ایک پٹھیا) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بطور زکاة ادا کرتے تھے اور آج اس کی ادائیگی سے انکار کرتے ہیں تو میں ان سے جنگ کروں گا۔ چنانچہ آپ نے مختلف صحابہ کی سرکردگی میں کئی لشکر ترتیب دیئے اور نہایت ہمت وشجاعت کے ساتھ ان سے جنگ کرکے انھیں شکست دی ۔ بدؤوں کو قابو میں کرکے پورے عرب میں دوبارہ امن وامان قائم کیا۔
 مدعیان نبوت کی سرکوبی:
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں نبوت کے کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ان کی طاقت بہت بڑھ گئی۔ ان میں سے تین نے اپنی بڑی جماعت بنالی اور مسلمانوں سے جنگ کی لیکن شکست سے دوچار ہوئے۔
            ١۔ طلیحہ اسدی: جس نے بعد میں توبہ کی اور اسلام قبول کرلیا۔
            ٢۔ مسیلمہ کذاب: مقام یمامہ پر اس سے سخت خوں ریز جنگ ہوئی بالآخر مسیلمہ کے قتل ہوجانے کے بعد اس فتنہ کا خاتمہ ہوگیا۔
            ٣۔ اسود عنسی: اس کو رات میں اس کے محل کے اندر گھس کر قتل کیا گیا اور صبح محل کے اوپر سے فجر کی اذان دے کر مسلمانوں کی فتح کا اعلان کیا گیا۔
 شام وعراق پر لشکر کشی:
            مرتدین کی سرکوبی سے فراغت کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ملک شام کی طرف اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو عراق کی طرف لشکر دے کر روانہ فرمایااور مرتد ہوجانے والے کسی شخص کو ان فتوحات میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی۔
فضائل ومناقب :
             ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں ، چند حسب ذیل ہیں:
            ١۔مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ کے والدین اور ساری اولاد مشرف بہ اسلام ہوئی نیز آپ ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
            ٢۔ آپ کو مسلمانوں نے اپنا سب سے پہلا خلیفہ منتخب کیا۔
            ٣۔ ہجرت میں آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق سفر تھے۔ غارثور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر ان دو آدمیوں کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اﷲ تعالی ہے۔
            ٤۔ ارشاد نبوی ہے : اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل (جگری دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور رفیق ہیں ۔
            ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دنیا نے مجھے جھٹلایا ابوبکر نے میری تصدیق کی اور اپنی جان ومال سے میرا ساتھ دیا۔نیز فرمایا: ہم نے ابوبکر کے سوا سب کے احسانات کا بدلہ دے دیا ہے ، ابو بکر کے احسان کا بدلہ قیامت کے دن اﷲ تعالی دے گا۔
            ٦۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھے اور آپ کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے زیادہ محبوب بیوی تھیں۔
            ٧۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جنت کے تمام دروازوں سے داخل ہونے کے لئے پکارا جائے گا۔
            ٨۔ آپ تعبیر خواب کے ماہر، نسب کے عالم اور بڑے خطیب تھے۔
            ٩۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے افضل شخص ہیں۔ آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ، ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ، ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ خود علی رضی اللہ عنہ کوفہ کے منبر سے اس بات کا اعلان کیا کرتے تھے۔
            ١٠۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص وزیر تھے ۔ سنہ ٩ھ میں جب مسلمانوں نے فتح مکہ کے بعد پہلا حج کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی کو امیر حج بنا کے بھیجا۔
            ١١۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کی صلاة کا امام بنایا۔
وفات:
             ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ ٢١/جمادی الاخری ١٣ھ منگل کی شام کو آپ کا انتقال ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغل میں دفن کئے گئے۔آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس نے غسل دیااور آپ کی صلاة جنازہ عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلیفۂ ثانیعمر فاروق رضی اللہ عنہ

نام ونسب: 
            ابو حفص عمر بن خطاب بن نفیل العدوی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نسب نویں پشت میں کعب بن لوی سے مل جاتا ہے۔آپ کی والدہ حنتمہ بنت ہاشم ہیں۔
پیدائش :
            عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تیرہویں سال پیدا ہوئے۔
نمایاں اوصاف:
            عمر فاروق رضی اللہ عنہ قبیلۂ قریش کے معزز گھرانے بنوعدی کے ایک فرد تھے ۔ نہایت بہادر، جرأت مند، نڈر، حق گو اور غیرت مند انسان تھے ۔ آپ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لئے مشہور تھے ۔ آپ زمانۂ جاہلیت میں جنگ وغیرہ میں سفارتی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔آپ نہایت بارعب تھے۔ آپ کی ہیبت سے روم وایران کے بادشاہ کانپتے رہتے تھے۔
قبول اسلام:
            عمر فاروق رضی اللہ عنہ سنہ ٦ نبوی میں اسلام لائے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔آپ کے اسلام سے مسلمانوں نے اپنے اندر بڑی قوت محسوس کی۔
ازواج واولاد: 
            عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چھ شادیاں کیں اور ان سے متعدداولاد پیدا ہوئی۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
            ١۔زینب بنت مظعون ۔جن سے ایک بیٹے عبد اﷲ پیدا ہوئے جو زبردست عالم اور متبع سنت تھے اورایک  بیٹی حفصہ پیدا ہوئیں جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا۔
            ٢۔ ام کلثوم بنت جرول۔ جن سے عبیداللہ پیدا ہوئے۔
            ٣۔ جمیلہ بنت ثابت۔ جن سے عمر بن عبدالعزیز کے دادا عاصم پیدا ہوئے۔
            ٤۔ ام کلثوم بنت علی ۔ جن سے زید اکبر ورقیہ پیدا ہوئے۔
            ٥۔ ام حکیم بنت حارث ۔ جن سے فاطمہ پیدا ہوئیں۔
            ٦۔ حبیبہ بنت خارجہ ۔ جن سے عیاض پیدا ہوئے۔
خلافت:
            ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ١٣ھ میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ نامزد کیا۔ آپ نے دس سال تک زمام خلافت سنبھالی ۔ آپ کا عہد خلافت اسلامی تاریخ کا نہایت زریں دور ہے۔
کارنامے:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کارنامے تاریخ کا روشن باب ہیں۔ چند ایک یہ ہیں۔
            ١۔ آپ نے سب سے پہلے رمضان سنہ ١٤ ھ میں تراویح کے لئے مسلمانوں کو ایک امام پر جمع فرمایا۔
            ٢۔ آپ نے سب سے پہلے ہجری تاریخ کا سنہ ١٦ھ سے آغاز فرمایا۔
            ٣۔آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔
            ٤۔ آپ نے شہر بسائے، قاضی مقرر کئے، دفاتر قائم کئے ، عطیات اور وظیفے مقرر کئے۔
            ٥۔ مسجد نبوی کی توسیع کی۔
            ٦۔ آپ نے یہودیوں کو جزیرۂ عرب سے جلا وطن فرمایا۔
            ٧۔ آپ کی خلافت میں بہت ساری فتوحات ہوئیں ۔ مصر وشام، دمشق، قادسیہ،حمص، بیت المقدس اور دیگر ممالک فتح ہوئے۔
فضائل ومناقب:
            ١۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خوش خبری سن لو اے خطاب کے بیٹے عمر! اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تمھیں شیطان کسی راستہ میں چلتاہوا دیکھ لیتا ہے تو وہ تمھارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ میں ہولیتا ہے۔
            ٢۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم سے پہلی امتوں میں ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جن پر الہام ہوتا تھا اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ بلاشبہ عمر ہیں۔
            ٣۔ آپ ان دس میں سے ایک ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت نام بنام دی ہے ۔
            ٤۔آپ کی رائے کے مطابق اﷲ تعالی نے قرآن پاک کی کئی آیات نازل کی ہیں۔بدر کے قیدیوں ، عورتوں کے پردے، شراب کی حرمت اور مقام ابراہیم کو مصلی بنانے میں اﷲ تعالی نے آپ کی موافقت فرمائی۔
            ٥۔ آپ بڑے ماہر سیاست داں اور عبقری تھے۔
وفات :
            آپ شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے ، اﷲ تعالی نے آپ کی یہ تمنا پوری فرمائی ۔ ایک دن آپ صلاة فجر پڑھارہے تھے ابولؤلؤ فیروز مجوسی نے نیزہ سے آپ پر حملہ کیا اور کئی زخم لگائے، جن زخموں کی تاب نہ لاسکے اور ذوالحجہ سنہ ٢٣ ھ بدھ کی شب میں شہید ہوگئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پڑوس میں دفن کئے گئے۔آپ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی طرح تریسٹھ سال کی عمر پائی۔آپ کی صلاة جنازہ صہیب رضی اﷲ عنہ نے پڑھائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



خلیفۂ ثالثعثمان غنی رضی اللہ عنہ

نام ونسب :
            عثمان بن عفان بن أبی العاص بن أمیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی ۔ پانچویں پشت میں آپ کا نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ام حکیم بیضاء آپ کی نانی ہیں۔آپ کی والدہ کا نام اروی بنت کریز ہے۔
پیدائش :
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پیدائش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے چھ سال بعد ہوئی۔
قبول اسلام :
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ آپ سابقین اولین میں سے ہیں۔آپ نے اپنی بیوی رقیہ کو لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
ازواج واولاد:
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ کا آپ سے نکاح کیا ۔ ان سے عبداﷲ نامی فرزند پیدا ہوئے لیکن بچپن ہی میں چھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ پھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے عمرو رکھا ، کچھ دن کے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔رقیہ رضی اﷲ عنہا بھی سنہ ٢ ھ میں وفات پاگئیں۔ ان کے بعد آپ کا دوسرا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ام کلثوم سے ہوا۔اسی وجہ سے آپ کا لقب ذوالنورین پڑگیا۔
خلافت:
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ  محرم ٢٤ھ  کو مسلمانوں کے خلیفہ اور امیرالمؤمنین منتخب کئے گئے۔ بارہ سال تک نہایت کامیابی کے ساتھ کاروبار خلافت سنبھالا پھر ظالم باغیوں کے ہاتھوں آپ شہید کردیئے گئے۔
کارنامے:
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شاندار کارناموں کی فہرست بڑی طویل ہے چند حسب ذیل ہیں:
            ١۔ مدینہ کے اندر میٹھے پانی کا کنواں بئر رومہ بیس ہزار درہم میں خرید کر آپ نے ہی مسلمانوں کے لئے وقف کیا۔
            ٢۔ غزوۂ تبوک میں ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مع سازوسامان دیئے ۔ نقد چندہ اس کے علاوہ تھا ۔
            ٣۔ تمام اہل اسلام کو ایک مصحف پر آپ نے اکٹھا کیا۔
            ٤۔آپ نے مسجد حرام اور مسجد نبوی دونوں کی توسیع کی اور انھیں عمدہ خوبصورت پتھروں سے بنایا۔
            ٥۔ سب سے پہلے بحری بیڑہ آپ نے بنایا جس سے ہرقل کے بیڑہ کو تباہ کیا اور پھر بڑے آباد جزائر فتح کئے۔ قبرص ، کریٹ ، مالٹا آپ کے فتح کردہ جزیرے ہیں۔
            ٦۔آپ کے عہد مبارک میں کافی فتوحات ہوئیں ۔ مشرق میں خراسان ، ماوراء النہر ، ترکستان ، سندھ اور کابل ۔ مغرب میں سوڈان ، اسکندریہ ، مراکو، تیونس ، طرابلس اور الغرب فتح ہوئے۔
فضائل ومناقب:
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں ، چند کو ہم ذکر کرتے ہیں۔
            ١۔ آپ ان دس میں سے ایک ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت نام بنام دی تھی۔
            ٢۔ آپ ان سابقین میں سے ہیں جنھوں نے دونوں قبلہ کی سمت رخ کرکے صلاة پڑھی ہے ۔ آپ نے دو ہجرتیں کی ہیں ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ کی طرف۔
            ٣۔ آپ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ کا نکاح کیا اور جب وہ وفات پاگئیں تو اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کو آپ کے نکاح میں دے دیا ۔ اسی لئے آپ ذو النورین کہلائے۔
            ٤۔ آپ ان چھ میں سے ایک ہیں جن کو عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنی وصیت میں شایان خلافت بتایا اور فرمایاکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی آپ ان سب سے راضی تھے۔
            ٥۔ صلح حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان کا وقوع جس کا مہتم بالشان تذکرہ قرآن مجید میں ہے اس لئے ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ آپ کے سفیر عثمان رضی اﷲعنہ کے ساتھ قریش نے بدسلوکی کی ہے ۔ اس بیعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ بتاکر ان کی طرف سے بیعت قبول فرمائی تھی ۔ اس نظارہ کو دیکھ کر بے اختیار ایک صحابی بول اٹھے تھے کہ عثمان کے لئے نبی کا ہاتھ خود ان کے اپنے ہاتھ سے بہتر ہے۔
            ٦۔ آپ نہایت حیا دار تھے ۔ آپ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں ایسے شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔
نمایاں اوصاف:
            ١۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ  نہایت فیاض تھے اور اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں سب صحابہ سے پیش پیش رہتے۔
            ٢۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ  دولت مند گھرانے کا چشم وچراغ تھے۔ حسن سیرت اور عفت وحیاء کے اعلی اخلاق پر آپ کی نشو ونما ہوئی تھی۔ آپ لوگوں میں بڑی عزت ومحبت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
            ٣۔ عرب کے ان پڑھ ماحول میں  عثمان غنی رضی اللہ عنہ ان چند منتخب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں تحریر وکتابت کا ملکہ حاصل تھا۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے قرآن پاک لکھوایا کرتے تھے۔
وفات :
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی وفات مظلومانہ شہادت کے ذریعہ ہوئی۔ ١٧ذوالحجہ ٣٥ھ بروز جمعہ آپ دار الہجرة مدینہ طیبہ کے اندر اپنے گھر میں قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے کہ آپ پر نیزہ سے حملہ کیا گیا۔ خون کے چھینٹے قرآن مجید کی آیت (فسیکفیکہم اﷲ) پر گرے۔آپ کا قاتل رومان نامی بدبخت ہے جو علی رضی اﷲ عنہ کے قاتل ابن ملجم شقی کے قبیلے مراد سے تعلق رکھتا ہے۔
             عثمان غنی رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے وقت ان کی عمر اٹھہتر(٧٨) سال کی تھی۔ آپ کو بقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



خلیفۂ رابععلی حیدر رضی اللہ عنہ

نام ونسب :
            علی بن أبی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔
پیدائش :
            علی حیدر رضی اللہ عنہ مکہ میں بعثت نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئے ۔
قبول اسلام:
            جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کا اعلان فرمایااور لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو علی رضی اﷲ عنہ نے پہل کی اور بچوں میں سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا۔اس وقت آپ دس سال کے تھے۔
ازواج واولاد:
            علی حیدر رضی اللہ عنہ کا نکاح   ٢ھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کیا۔ ان سے دو بیٹے حسن اور حسین پیدا ہوئے۔جب تک فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ نے کئی شادیاں کیں۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
            ١۔ خولہ بنت جعفر جن سے محمد اکبر پیدا ہوئے۔
            ٢۔ لیلیٰ بنت مسعود جن سے عبید اﷲ اور ابوبکر پیدا ہوئے۔
            ٣۔ ام البنین بنت حزام جن سے عباس اکبر، عثمان ، جعفر اکبراور عبد اللہ پیدا ہوئے۔
            ٤۔ اسماء بنت عمیس جن سے یحییٰ اور عون پیدا ہوئے۔
            ٥۔ ام حبیب صہباء بنت ربیعہ جن سے عمر اکبر اور رقیہ پیدا ہوئے۔
            ٦۔ امامہ بنت العاص بن الربیع جن سے محمد اوسط پیدا ہوئے۔
            ٧۔ ام سعید بنت عروة جن سے ام الحسن اور رملہ کبری پیدا ہوئیں۔
            ٨۔ محیاة بنت امرؤ القیس جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی لیکن بچپن ہی میں فوت ہوگئی۔
            ان کے علاوہ باندیوں سے بھی آپ کی کئی اولاد ہوئیں۔ الغرض آپ کی پشت سے چودہ بیٹے اور انیس بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
خلافت :
             ٣٥ھ میں عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا۔ آپ کی مدت خلافت کل چار سال ، نو مہینے اور تین دن ہوتی ہے۔
نمایاں اوصاف:
            ١۔آپ نہایت بہادر اور عظیم شہسوار تھے۔
            ٢۔ دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے شیدا تھے۔
            ٣۔ عرب کے ان پڑھ ماحول میں علی حیدر رضی اللہ عنہ ان چند منتخب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں تحریر وکتابت کا ملکہ حاصل تھا۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے قرآن پاک لکھوایا کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صلحنامہ کے کاتب علی رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
            ٣۔ اﷲ تعالی نے علی حیدر رضی اللہ عنہ  کو زبردست علم وفہم اور قوت فیصلہ سے نوازا تھا۔
            ٤۔ لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانے کی اچھی صلاحیت رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:'' اگر تمھاری کوششوں سے ایک شخص بھی مسلمان ہوگیاتو وہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے''۔
کارنامے:
             علی حیدر رضی اللہ عنہ کے شاندار کارناموں کی فہرست بڑی طویل ہے, چند حسب ذیل ہیں:
            ١۔بچوں میں سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرتے وقت آپ کی عمر دس سال تھی۔
            ٢۔غزوۂ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔
            ٣۔اپنے سے پہلے کے تینوں خلفائے راشدین کے زمانے میں لوگوں کی تعلیم، فتوی اور قضامیں مشغول رہے نیز امور خلافت میں مخلصانہ مشورے دیتے رہے۔
            ٤۔ ہجرت کی رات جب مشرکین مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلادیا۔ علی رضی اللہ عنہ اطمینان سے سوئے۔ صبح ہوئی، مکہ والوں کی امانتیں واپس کیں اور پھر مدینہ ہجرت کی۔
            ٥۔ غزوۂ بدر میں جنگ سے پہلے مبارزت کے لئے نکلے اور اپنے مقابل ولید کو ایک ہی وار میں تہِ تیغ کردیا۔
فضائل ومناقب :
             علی حیدر  رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں ، چند کو ہم ذکر کرتے ہیں۔
            ١۔ آپ ان دس میں سے ایک ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت نام بنام دی تھی۔
            ٢۔ علی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔
            ٣۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں فرمایا: وہ اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں اور اﷲ اور اس کے رسول ان سے محبت کرتے ہیں۔
            ٤۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جس کا دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے ۔
            ٥۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اﷲ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمھارا مجھ سے وہی درجہ ہو جو موسی سے ہارون علیہ السلام کا تھا ؟ ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
وفات :
            ١٧ رمضان ٤٠ھ بروز جمعہ جب علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی مسجد میں صلاة فجر کے لئے تشریف لے جارہے تھے بدبخت عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے آپ کو شہید کردیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ رضی اﷲ عنہ وأرضاہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔