الاثنين، 28 فبراير 2022

شیخ عبدالحمید بن عبدالجبار رحمانی رحمہ اللہ

ایک نام جو اپنا تعارف خود ہے۔ برصغیر ہند وپاک کی وہ معروف ومشہور علمی شخصیت  جسےصرف اہل حدیث ہی نہیں بلکہ تمام اہل اسلام ان کی تعلیمی ورفاہی خدمات کی بنا پر بہت عزت دیتے تھے۔  آپ کی ذہانت وقابلیت کا چرچا زمانہ طالب علمی ہی سے تھا۔  جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس جو ابتدا میں جامعہ رحمانیہ کے نام سے تھا اس کے قدیم فارغین میں سے تھےاور اسی نسبت سے رحمانی لکھا کرتے تھے۔ افراد جماعت اہل حدیث کے سامنے جب مختصر طور پر "رحمانی صاحب" کہا جائے تو آپ ہی مراد ہوتے تھے۔ 

 آپ کا مقام پیدائش موضع تندوا ضلع سدھارتھ نگر یوپی ہے اور یہی آپ کی آبائی بستی ہے۔ دہلی مستقل سکونت پذیر ہوجانے کے بعد بھی آپ کا یہاں آنا جانا رہا کرتا تھا۔ چونکہ ہمارا گاوں بڈھی بیرہوا بھی آپ کے گاوں کے قریب ہے اور ہماری ابتدائی تعلیم بھی اسی علاقہ کے اسی مکتب اور مدرسہ میں ہوئی جہاں آپ کی ابتدائی تعلیم ہوئی تھی یعنی مدرسہ دارالتوحید مینا عیدگاہ ضلع سدھارتھ نگر لہذا آپ کا نام ہم اسی وقت سے سنتے رہے ہیں جب سے ہوش سنبھالا اور شعور کو پہنچے۔ 

والد محترم مولانا عبدالخالق خلیق رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ایک بار شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ مدرسہ دارالتوحید مینا عیدگاہ ضلع سدھارتھ نگر کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے ہوئے تھے اور آپ نے ایسی پرسوز تقریر فرمائی کہ خود بھی روئے اور سامعین کو بھی رلایا۔  دراصل آپ نے اپنے بچپن، اپنی والدہ اور اپنی غربت کا ذکر کیا اور اس بات پر آبدیدہ ہوگئے کہ جب آپ اس لائق ہوئے کہ اپنی والدہ کی خدمت کرسکتے اور انھیں آرام پہنچاسکتے تو وہ اس دنیا سے چل بسیں۔ شیخ اس بات کو بار بار کہتے جاتے اور روتے جاتے اوراپنی والدہ کے لئے کلمات خیر کہتے جاتے اور دعائیں دیتے جاتے۔

ظاہر ہے کہ والدہ کا مقام ومرتبہ جو ایک عالم دین سمجھ سکتا ہے وہ کوئی اور کیا سمجھ سکتا ہے۔  اللهم اغفر للشيخ  عبد الحميد.

جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے وسیع کمپلیکس کی عظیم الشان جامع مسجد کے افتتاح کی تقریب تھی۔ شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے ایک جلسۂ عام کا انعقاد کیا اور ملک کے نامور علماء کو دعوت دی جس میں سے ایک شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ بھی تھے۔ آپ نے اپنے زبردست خطاب میں جب اہل حدیث کی مظلومیت اور غیراہل حدیث مدارس سے اہل حدیث طلبہ کے اخراج کا تذکرہ کیا تو خود بھی روپڑے اور عوام بھی روپڑی۔ آپ نے فرمایا: ”لوگو، آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ ہم نے کبھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توہین نہیں کی، ان کا سب سے شاندار تذکرہ تاریخ اہل حدیث میں ایک اہل حدیث عالم مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے کیا ہے۔ اتباع سنت وحدیث ہمارا اتنا بڑا جرم تھا کہ ہمارے لئے مدارس کے دروازے بند کردیئے جائیں“۔ پھر آپ نے شیخ مختار احمد ندوی کی تعریف فرمائی اور آپ کو بہت ساری دعائیں دیں جنھوں نے مہاراشٹر میں آگے بڑھ کر سلفیت اور اہل حدیثیت کا چراغ روشن کیا اور اہل حدیث طلبہ کی علمی سیرابی کا انتظام کیا ۔

ایک بار شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ احساء تشریف لائے ہوئے تھے۔ احساء اسلامک سینٹر کے مدیرعام ابوسلیمان الجغیمان حفظہ اللہ کے مہمان تھے۔ واضح رہے کہ ابوسلیمان شیخ کی بڑی عزت وتکریم کرتے تھے۔  شیخ کا جبیل دعوۃ سینٹر میں پروگرام تھا ۔ ابوسلیمان حفظہ اللہ نے اس کے لئے سینٹر کی جانب سے آمد ورفت  کا انتظام کیا۔ شیخ نے ناچیز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ابوسلیمان سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس سفر میں عبدالہادی بھی ہمارے ساتھ رہیں تاکہ راستے  بھر علمی ماحول رہے۔  پروگرام یہ تھا کہ جمعہ تک جبیل پہنچ کر صلاۃ جمعہ وہیں ادا کریں گے۔ لیکن بعض اسباب کی بناپر تاخیر ہوگئی اور جمعہ کے وقت تک ہم جبیل نہ پہنچ سکے تو میں نے کہا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سفر میں جمعہ نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بے شمار سفر کئے لیکن ایک بار بھی آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی سفر میں جمعہ ادا کیا ہو۔ ابھی یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ابوسلیمان کا فون آگیا، انھوں نے پوچھا : کیا آپ لوگ جبیل پہنچ گئے؟ کیا آپ لوگ صلاۃ جمعہ سے فارغ ہوگئے تو شیخ نے صورت حال سے واقف کراتے ہوئے بتایا کہ ابھی ہم لوگ راستے میں ہیں اور میرا نام لے کر ابوسلیمان سے کہا کہ آپ کے سینٹر کے شیخ ، استاد عبدالہادی نے بتایا ہے کہ امام ابن تیمیہ کا فتوی ہے کہ سفر میں جمعہ نہیں ہے لہذا ہم لوگ جبیل پہنچ کر ظہروعصر ایک ساتھ ادا کریں گے۔

یہاں قابل غور یہ ہے کہ شیخ نے مجھ جیسے ایک ادنی طالب علم کی کس قدر حوصلہ افزائی کی، آپ میرا حوالہ دیئے بغیر بھی ابوسلیمان کو مسئلہ بتاسکتے تھے لیکن نہیں  آپ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ نے جس سے مسئلہ سنا تھا اس کا نام لیا ، اس کا حوالہ دیا حالانکہ یہ مسئلہ آپ کو پہلے سے معلوم رہا ہوگا، یہ مسئلہ بتاکر میں نے آپ کے علم میں کوئی اضافہ نہ کیا ہوگا۔

آج کتنے لوگ ہیں کہ مسئلہ دوسرے سے معلوم کرکے پھر خود بتلاتے ہیں اور جس سے استفادہ کیا اس کانام تک لینا گوارہ  نہیں کرتے بلکہ یہ تک خواہش ہوتی ہے کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ کسی اور سے پوچھ کر مسئلہ معلوم کیا ہے۔  واللہ المستعان۔ 

شیخ عبدالحمید رحمانی اپنی حق گوئی وبیباکی  کے لئے معروف تھے لیکن اس کا دوسرا پہلو حق کو قبول کرنا ہے اور شیخ کو اللہ تعالی نے اس خوبی سے بھی نوازا تھا چنانچہ اس سلسلہ میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ 

شیخ احساء اسلامک سینٹر تشریف لائے ہوئے تھے۔ مدیر عام ابوسلیمان وفقہ اللہ کے ساتھ میٹنگ تھی۔ شیخ شیروانی زیب تن کئے ہوئے تھے۔ دوران گفتگو لباس پر بات آگئی تو شیخ نے غالباً تشخص اور تعارف کے مدنظر  اپنے قومی لباس کی پسندیدگی کا عندیہ ظاہر کیا۔ ناچیز نے اس رائے سے اختلاف کیا اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور عالم کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کے حوالہ سے یہ بات نقل کی کہ  التشبہ فی الظاھر یورث التشبہ فی الباطن اور تشبہ بالعرب میں خیر ہے ۔ چنانچہ شیخ نے اسے تسلیم کیا اور اس کے بعد کے اسفار میں میں نے دیکھا کہ شیخ جب احساء آتے تھے تو عربی لباس پہنتے اور سفید غترہ لگایا کرتے تھے۔
موضع کیوٹلی ضلع سدھارتھ نگر  یوپی میں ایک جلسہ تھا ۔ شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ اس میں مہمان خصوصی کے بطور مدعو تھے۔  ناچیز ان دنوں سعودی عرب سے چھٹی پر ہندستان گیا ہوا تھا۔ شیخ سے ملاقات کی غرض سے وہاں حاضر ہوا۔شیخ نے اپنی تقریر کے دوران اسٹیج پر ذمہ داران کو مخاطب کرکے فرمایاکہ آپ کے قریب میں عبدالہادی مدنی جیسے سنجیدہ خطیب موجود تھے ان سے استفادہ کرنا تھا۔ یہ بات اسٹیج پر موجود بہت سے بزرگوں کے لئے ناگوار خاطر تھی لیکن شیخ نے کسی کی ملامت کی پروا کئے بغیر ایک ادنی طالب علم کی حوصلہ افزائی سے دریغ نہیں کیا۔ اللهم اغفر له وارحمه