الثلاثاء، 22 أكتوبر 2019

اجتماعی رقیہ کا شرعی حکم


الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله ، أما بعد :
ایک سوال پوچھا گیا ہے کہ مسجد میں اجتماعی رقیہ کا کیا حکم ہے ؟ جہاں مرد و خواتین دونوں جمع ہوتے ہیں، اثناء رقیہ لوگوں پر دورے پڑتے ہیں، شور مچتا ہے اور ایک عجیب و غریب ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے ، راقی صاحب مرد و خواتین کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے  کہتے ہیں ، اے جن نکل جا ، اب ان کے پاس یہ جاننے کا کیا پیمانہ  ہوتا ہے کہ واقعی مریض کے اندر کوئی جن بیٹھا ہے ، مجھے نہیں معلوم ، جواب مرحمت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون اللہ الوہاب :
صورت مسئولہ میں اجتماعی رقیہ کی معمولی سی منظر کشی کی گئی ہے لیکن آئیے مزید معلوم کریں کہ اجتماعی رقیہ کیا ہے اور اس میں کیا کیا ہوتا ہے ؟ کیونکہ جب اس کا صحیح تصور ہمارے ذہن میں آجائے گا تو اس کے بارے میں کسی درست اور موزوں فیصلے تک پہنچنے میں سہولت ہوگی ، اجتماعی رقیہ میں عام طور سے ہوتا  یہ ہے کہ کچھ دم درود اور جھاڑ پھونک کرنے والے اپنے وقت کی بچت کی خاطر یا بیک وقت دسیوں بلکہ پچاسوں یا سیکڑوں مریضوں کو نپٹانے کے لئے یا کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کے لئے یا کسی اور غرض سے کسی ایک جگہ خواہ وہ مسجد ہو یا کوئی ہال یا کمرہ یا کھلا میدان ہو وہاں پر لاوڈسپیکر سے یا اس کے بغیر  بعض آیات کی تلاوت کرتے اور دعا پڑھ کر پھونکتے ہیں اور اس طرح آسیب زدہ مریضوں کا علاج کرنے کا دعوی کرتے ہیں ۔  کبھی مریضوں کے درمیان سے گزرتے ہیں اور کبھی اسٹیج ہی سے پھونک ماردیتے ہیں ، مریضوں کے اس مجمع میں مرد بھی ہوتے ہیں اور خواتین بھی ، ہر ایک کی اپنی حرکات بھی ہوتی ہیں ، کوئی چیختا ہے ، کوئی کتے کی طرح بھونکتا ہے ، کوئی بلی کی طرح  آواز نکالتا ہے ، کوئی اچھلتا ور بھاگتا ہے، کوئی قے کرتا ہے ، کوئی پانی سے نکالی گئی مچھلی کی طرح تڑپتا ہے، کوئی اپنے سامنے آنے والے ہر شخص پر دست درازی کرتا ہے ، مارپیٹ کرتا ہے ، کوئی خود کو ہی مار ڈالنا چاہتا ہے ، اپنے گالوں پر طمانچہ مارتا  اور اپنا سینہ پیٹتا ہے۔ کسی کا دعوی ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے جن یا شیطان بول رہا ہے اور اگر یہ شیطان کسی عورت پر سوار ہے تو اس بھرے مجمع میں مختلف انداز سے اس کی اور اس کے خاندان کی ذلت ورسوائی اور فضیحت کا سامان کرتا ہے ، سرعام اعلان کرتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا اور ایسا کیا ہے اور آئندہ کروں گا وغیرہ وغیرہ ۔ بعض عورتیں بے پردگی میں مبتلا ہوجاتی ہیں،  نہ سر پر دوپٹہ اور نہ سینے پر چادر، کچھ عورتیں کئی کئی مردوں کے پکڑنے سے بھی نہیں سنبھلتیں ، بسا اوقات رقیہ کرنے والا ان اجنبی عورتوں کو چھوتا ، پکڑتا  یا ان کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے جو یقینا غیر شرعی اعمال ہیں ، بہرکیف مریضوں کے اس مجمع کی صورت دیدنی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ راقی کا رویہ اور سلوک بھی ، اس بدترین منظر کو دیکھ کر اچھا خاصا تندرست انسان بھی ذہنی اور نفسیاتی مریض بن سکتا ہے ، بلکہ اس میں بہت سارے شیاطین ایک دوسرے کی نقالی کرتے ہیں اور اس طرح اپنی شرارتوں میں اضافہ کرتے ہیں ، اس میں بہت سے ڈھونگی اور ناٹک باز بھی ہوتے ہیں کبھی کبھار تو خود دم جھاڑ کرنے والا بھی گھبرا جاتا اور پریشان ہوجاتا ہے ، یہ سب دیکھ اور سن کر کسی بھی طالب علم اور صاحب عقل وبصیرت  کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ سب تماشا درست  ہے یا نادر ست  ؟  
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ اس طریقے سے کچھ مریضوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے ان سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو نقصان ہوتا ہے ۔ اس سے توہم پرستی کو ترقی ملتی ہے، شیطانی وساوس میں زیادتی ہوتی ہے ، اور نفسیاتی مریضوں کے مرض میں  افاقہ کے بجائے اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ شرعی اصول یاد رکھنا چاہئے کہ جن چیزوں میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہو وہ شریعت کی نظر میں ممنوع اور حرام ہیں ،  اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رقیہ کا مذکورہ طریقہ اپنے مفاسد ومضرات کی کثرت کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے ، کتاب وسنت اور عمل سلف میں اس کی کوئی اصل اور دلیل موجود نہیں ،  یہ ایک مبتدعانہ عمل ہے ، ممکن ہے کہ اس کے پیچھے بعض دنیادار افراد کے حرص وہوس کی بھی کارفرمائی ہو۔ اللہ تعالی دنیاوی مال ومتاع کے چکر میں اپنی آخرت ضائع کرنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
ہم تما م رقیہ کرنے والوں سے بصد احترام یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ اللہ سے ڈریں اور شرعی اصول وضوابط کی پابندی کرتے ہوئے ہی رقیہ کا عمل سرانجام دیں  اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس میں خود ان کی اپنی بھی رسوائی ہو اور ساتھ ہی پاکیزہ دین اسلام اور شریعت مطہرہ کی بھی بدنامی ہو۔
  ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو توحید کی تعلیم دی جائے اور یہ سکھایا جائے کہ  اللہ پر توکل کریں اور  خود دعائیں سیکھ کر  اپنے اوپر دم کیا کریں ، شفا کا مالک اللہ ہے ، اسی کے شفا دینے سے ہی کسی کو شفا ملتی  ہے ، وہ شفاا ور عافیت نہ دے تو دنیا کی کوئی طاقت شفا اور عافیت نہیں دے سکتی ۔ 
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم
 كتبه : عبد الهادي عبد الخالق المدني ))