الأربعاء، 8 يوليو 2015

مسائل عیدین

مسائل عیدین
اعداد:عبدالہادی عبدالخالق مدنی

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين وعلى آله وصحبه أجمعين , أما بعد:
پیش نظر مقالہ  میں ہم اختصار کے ساتھ مسائل عیدین کو بیان کررہے ہیں۔ رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے جملہ امور میں سنت کی روش اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
          صلاة عیدین سنت مؤکدہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت ومداومت فرمائی ہے۔ اہل وعیال سمیت عیدگاہ نکل کر صلاة عید کی ادائیگی مسلمانوں کا ایک عظیم شعار ہے۔ صلاۃ عیدین کے چند آداب واحکام مندرجہ ذیل ہیں:-
عید خوشی اور مسرت کا دن :
اللہ تعالیٰ نے خوشیاں منانے اور مسرت کا اظہار کرنے کے لئے سال میں دو دن بطور عید مقرر فرمائے ہیں۔ چنانچہ  انس  رضی اللہ عنہ   کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے پاس دو دن کھیل کے لئے مخصوص تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیا ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم ان دنوں میں جاہلیت میں کھیلا کرتے تھے۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالی نے ان دو دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالاضحی اور دوسرے عید الفطر۔ (صحیح سنن ابی داود/1134)
عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ میرے والد ابوبکر  رضی اللہ عنہ  میرے پاس عید کے دن تشریف لائے، میرے پاس انصار کی دولڑکیاں - جو گانے والیاں نہیں تھیں - وہ اشعار گارہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقعہ پر کہے تھے، ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: «اے ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے»۔ (متفق علیہ، بخاری، کتاب العیدین، ح:909 ومسلم کتاب العیدین، ح:892)
عید میں تکبیر پکارنا:
          عیدالفطر میں  چاند دیکھنے یا چاند کی اطلاع پانے سے لے کر صلاة عید پڑھ لینے تک اور عید الاضحی میں چاند دیکھنے یا اس کی اطلاع پانے سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک کثرت سے بہ آواز بلند تکبیر پکارتے رہنا سنت ہے البتہ عورتوں کو آہستہ اور پست آواز میں تکبیر کہنی چاہئے۔ تکبیر کا صیغہ یہ ہے : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
          اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: { وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ } [البقرة: 185] [تم گنتی پوری کرلو اور اﷲ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی تکبیر بیان کرو اور اس کا شکر کرو]
ام عطیہ  رضی اللہ عنہا  کی روایت ہے کہ ہمیں عید کے دن عیدگاہ کے لئے نکلنے کا حکم ہوتا تھا ، ہم غیرشادی شدہ لڑکیوں تک کو ان کے گھروں سے نکال کر لے جاتے تھے، ہم حیض والیوں تک کو نکال کر لے جاتے تھے، عورتیں مردوں کے پیچھے رہتی تھیں ، ان کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتی تھیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعا کرتی تھیں، اس دن کی برکت اور پاکیزگی کی امید رکھتی تھیں۔ (بخاری کتاب العیدین، ح:928)
نافع کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن عید گاہ پہنچنے تک تکبیر پکارا کرتے تھے ۔عید گاہ پہنچ کر امام کے آنے تک تکبیر کہا کرتے تھے ۔ پھر جب امام آجاتاتو اس کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتے ۔(دار قطنی وغیرہ بسند صحیح )
          نوٹ: بیک آواز اجتماعی تکبیر بدعت ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں۔ درست بات یہ ہے کہ ہر شخص تنہا تنہا الگ آواز میں تکبیر کہے ۔
عید کی تیاری:
          1۔ عیدین کے لئے غسل کرنا مستحب ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ وہ عید کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل فرمایا کرتے تھے۔ (اس حدیث کو صحیح سند سے امام مالک نے موطا میں روایت کیا ہے۔)
        علامہ ابن قیم فرماتے ہیں : ابن عمر رضی اللہ عنہ  جو اتباع سنت کی اپنی شدت میں معروف ہیں ان سے ثابت ہے کہ عید کے روز دن نکلنے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔ (زاد المعاد 1/442)
۲۔عیدین کے لئے خوبصورت اور عمدہ لباس پہننا مستحب  ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب العیدین کا پہلا باب یہی قائم کیا ہے: باب فی العیدین والتجمل فیہ (دونوں عیدوں کا بیان اور عید کے دن زیب وزینت اختیار کرنے کا بیان)۔ اس باب کے تحت امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں کہ ایک بار بازار میں ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ بک رہا تھا اسے لے کر عمر  رضی اللہ عنہ  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے خریدنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسے پہن کر عید اور وفود کی پذیرائی کے لئے زینت فرمایا کیجئے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: «یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ………..» الخ
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس لئے انکار فرمایا کہ وہ چغہ ریشم کا تھا جو مردوں پر حرام ہے لیکن عید کے دن اور وفود کی پذیرائی کے لئے خصوصی طور پر زیب وزینت اختیار کرنے سے آپ نے انکار نہیں فرمایا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کی ہے کہ ابن عمر  رضی اللہ عنہ  عیدین میں اپنا سب سے اچھا لباس پہنا کرتے تھے۔(فتح الباری2/51)
عید گاہ نکلنے سے پہلے کھجور کھانا:
صلاة عید الفطر کے لئے نکلنے سے پہلے طاق عدد کھجوریں (تین یا پانچ یا زیادہ مگر طاق ہی) کھانا سنت ہے ۔ اس کے برخلاف عیدالاضحی کے لئے کچھ کھائے بغیر نکلنا اور عیدگاہ سے واپس ہوکر پھر کچھ کھانا سنت ہے ۔
          انس  رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ کھجوریں کھائے بغیر نہیں جاتے تھے اور انہیں طاق عدد میں کھاتے تھے۔ (بخاری، کتاب العیدین، ح:910)
          بریدہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ کھجوریں کھائے بغیر نہیں جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن واپس آکر ہی کچھ کھاتے تھے۔  (ترمذی،ابواب العیدین، ح:542،  وصححہ الالبانی) یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے اور اس میں اتنا مزید ہے: کہ عید الاضحی سے واپس آکر اپنی قربانی میں سے کھاتے تھے۔
عید گاہ تک پیدل جانا :
          عید گاہ تک پیدل جانا سنت ہے۔ علی  رضی اللہ عنہ   کی حدیث ہے کہ سنت یہ ہے کہ عید کے لئے آدمی پیدل نکلے۔(ترمذی، ابواب العیدین، ح:530) امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے اور اکثر اہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے۔ عید کے لئے پیدل نکلنے اور بلا عذر سواری نہ کرنے کو وہ مستحب سمجھتے ہیں ۔
عورتوں کا عیدگاہ جانا :
عورتوں کو عیدگاہ تک نکل کر آنے کی تاکید ہے ۔ ام عطیہ  رضی اللہ عنہا  کہتی ہیں: ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم (عیدگاہ کی طرف ) نکلیں اور اپنے ساتھ حیض والیوں ،شادی شدہ عورتوں اور غیر شادی شدہ دوشیزاؤں کو بھی لے جائیں۔ حیض والی عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں شریک رہیں البتہ مصلی (نماز کی جگہ) سے الگ رہیں۔(متفق علیہ، بخاری، کتاب العیدین، ح:931، ومسلم کتاب العیدین، ح:۸90)
عورتوں کو عیدگاہ جانے کی زبردست تاکید ہے، حدیث روایت کرنے والی صحابیہ ام عطیہ  رضی اللہ عنہا  سے جب یہ کہا گیا کہ کیا حیض والی عورتیں بھی جائیں گی؟ تو انھوں نے کہا: ہاں، کیا حیض والی عورت میدان عرفات اور فلاں فلاں جگہ حاضر نہیں ہوتی!!۔ (بخاری، کتاب العیدین، ح:937)
راستہ بدلنا :
          سنت یہ ہے کہ ایک راستہ سے عید کے لئے جائے اور پلٹتے ہوئے دوسرے راستہ سے آئے ۔ جابر رضی اللہ عنہ   کی حدیث ہے کہ جب عید کا دن ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  راستہ  بدلا کرتے تھے ۔ (بخاری، کتاب العیدین، ح:910)
صلاة عید  کا وقت:
سورج نکلنے اور اوپر چڑھنے کے بعد صلاة عید پڑھنا مشروع ہے۔
صلاة عید  کا طریقہ:
1۔ صلاۃ عید کے لئے اذان واقامت نہیں۔
جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ دونوں عیدیں اذان اور اقامت کے بغیر پڑھی ہیں، صرف ایک دوبار نہیں (بلکہ کئی بار)۔(صحیح مسلم کتاب العیدین، ح:887)
۲- عید کی دو رکعتیں ہیں، پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہی جائیں گی۔ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عیدالفطر اور عید الاضحی میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے ۔ (صحیح سنن ابی داود)
3- سنت یہ ہے کہ صلاۃ عیدین میں امام جہری قرا ء ت کرے۔ سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ کی یا سورہ ق اور سورہ قمر کی تلاوت کرے ۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں سورہ أعلی اور سورہ غاشیہ پڑھتے تھے ۔ (صحیح سنن ابن ماجہ)
عبیداللہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  نے ابو واقد لیثی  رضی اللہ عنہ  سے دریافت کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عیدالفطر اور عیدالاضحی میں کیا پڑھا کرتے تھے ؟انھوں نے فرمایا : آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان دونوں عیدوں میں (ق والقرآن المجيد) اور (اقتربت الساعة وانشق القمر) پڑھا کرتے تھے ۔(مسلم، کتاب العیدین، ح:891)
 4- خطبہ صلاة عید کے بعد ہونا مسنون ہے۔   ابن عباس  رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ابو بکر وعمر و عثمان y کے ساتھ عیدالفطر میں موجود رہا ہوں ہر کوئی خطبہ سے پہلے صلاة عید پڑھتا تھا۔ (متفق علیہ، بخاری، کتاب العیدین، ح:919، ومسلم کتاب العیدین، ح:۸۸۴)
۵۔ صلاة عید سے پہلے یا بعد میں کوئی سنت نہیں ہے۔
دوران خطبہ امام سے مسئلہ پوچھنا:
خطبۂ عید کے دوران امام سے مسئلہ پوچھنا جائز ہے۔ انس  رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بقرعید کی صلاۃ پڑھائی پھر خطبہ دیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو شخص صلاۃ عید سے پہلے ذبح کرچکا ہے وہ دوبارہ قربانی کرے (کیونکہ اس کی قربانی قبل از وقت ادائیگی کی بنا کر قبول نہیں) ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے اور انھوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے کچھ غریب پڑوسی ہیں ان کی خاطر میں نے صلاۃ سے پہلے ذبح کردیا، میرے پاس بکری کا ایک بچہ ہے جو گوشت والی دوبکریوں سے زیادہ مجھے محبوب ہے (کیا اب میں اس کی قربانی کرسکتا ہوں؟) اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو اجازت عطا فرمائی۔ (بخاری، کتاب العیدین، ح:941)
جمعہ کے دن عید :
اگر عید کا دن جمعہ کے دن پڑ جائے تو جس شخص نے عید پڑھ لی اس پر صلاة جمعہ واجب نہیں ہے ۔ ابن عباس  رضی اللہ عنہ   کی حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے دن تمھاری دو عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں پس جو چاہے اس کے لئے عید جمعہ کی طرف سے کافی ہے اور ہم ان شاء اللہ جمعہ ادا کریں گے۔ (صحیح سنن ابی داود)
عید کی مبارکباد :
           ایک دوسرے کو مبارک باد دینے اور  تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ابن ترکمانی کا قول ہے کہ اس سلسلے میں ایک عمدہ حدیث ہے اور وہ محمد بن زیاد کی روایت ہے کہ میں ابو امامہ باہلی اور دیگر صحابۂ کرام کے ساتھ تھا وہ لوگ جب عید سے لوٹتے تو ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا ومنک کہتے۔ امام احمدنے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے ۔ (الجوہر النقی 3/320)
اگر صلاۃ عید چھوٹ گئی :
جو شخص مسلمانوں کے ساتھ صلاة عید نہ پڑھ سکے اسے صلاة عید کی قضا کرنی چاہئے ۔اور اگر عید کی اطلاع زوال کے بعد مل سکے تو تمام لوگوں کو ایک ساتھ اگلے دن صلاة عید پڑھنی چاہئے ۔ابو عمیر بن انس رحمہ اللہ اپنے صحابی چچاؤں سے روایت کرتے ہیں کہ ایک قافلہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور انھوں نے  گذشتہ کل چاند دیکھنے کی گواہی دی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ y کو صوم توڑنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ کل صبح عیدگاہ کی طرف نکلیں۔(اخرجہ اصحاب السنن و صححہ البیہقی والنووی وابن حجر وغیرہم)
عید کے دن بعض دینی خلاف ورزیاں :
          بعض لوگ عید کے دن کچھ دینی خلاف ورزیوں میں پڑجاتے ہیں جن سے بچنا بے حد ضروری ہے ۔مثال کے طور پر حرام زیب وزینت کا اختیار کرنا مثلا کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے رکھنا، داڑھی مونڈنا ، گانے بجانے کی حرام مجلسیں منعقد کرنا ، فلم بینی ، اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنا ،عورتوں کا بے پردہ نکلنا اور اختلاط مردوزن وغیرہ۔ ایک غیرت مند باپ کو اس بات سے بچنا چاہئے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو ان پارکوں ، تفریح گاہوں ، کھیل کود کی جگہوں اور ساحلوں پر لے جائے جہاں پر کھلے عام برائیاں ہوتی ہیں ۔
صدقۂ فطر اور قربانی :
عید الفطر کے لئے عید گاہ جانے سے پہلے گھر کے ہر ايك  فرد کی طرف سے  ڈھائی کیلو غلہ بطور صدقۂ فطر ادا کرنا فرض ہے۔ ایسے ہی عیدالاضحی کے بعد قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ زکاۃ فطر اور قربانی کے مسائل کی تفصیلات معلوم کرلینا چاہئے۔

هذا والحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم