ہر قسم کی حمد اللہ کے لئے ہے جس کی تعریف ہر ایک زبان پر
ہے۔ جو عظمت وجلال کی صفات سے متصف ہے۔
اکیلا ہے، سب کو سنبھالنے والا ہے، ہمیشہ زندہ رہنے والا، بے نیاز، سب سے بڑا، سب سے بلند، جس کے پیارے پیارے نام ہیں، جس کے ہاتھ میں
تمام نیکیوں اور بھلائیوں کی کنجیاں ہیں۔
ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور
اسی سے ہم ہدایت کا سوال کرتے ہیں اور
اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی آفتوں سے اسی کی پناہ میں آتے ہیں۔ اور میں
اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے کوئی
اس کا شریک نہیں۔ اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے
بندے اور رسول ہیں، اس کے مصطفی اور خلیل ہیں، آپ پر اللہ تعالی کی طرف سے صلاۃ
وسلام نازل ہو، اور آپ کے آل واصحاب پر
اور ان پر بھی جو اچھے انداز میں بدلہ کے دن تک ان کے نقوش قدم کو اپنائیں۔ اما
بعد:
اے اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس بات کو خوب اچھی طرح جان لو کہ آپ کے رب کے حسین ترین اور بزرگی والے بہت سے نام ہیں، جن کے اندر عظیم الشان معانی ہیں، پکارنے والے ان ناموں کے ذریعہ اسے پکارتے ہیں، ڈرنے والے ان ناموں کے وسیلہ سے اس سے امید لگاتے ہیں، جو شخص ان ناموں کے معانی کو سمجھ لے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرلے اس کا دل انوار الہی سے جگمگا اٹھے گا، اس کا سینہ علم ومعرفت کی بلندیوں کے لئے کھل جائے گا، اس کے اعضا اپنے رب کی اطاعت میں صاحب استقامت ہوجائیں گے، اس کا دل رنج وغم سے خالی اور محبت وتوکل اور انسیت وسعادت سے بھر جائے گا۔ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام "الودود" ہے۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جو مودت و محبت کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ محبت کی نہایت لطیف اور صاف ستھری قسم کا نام مودت ہے۔ ہمارا رب جل وعلا اپنے انبیاء ورسل اور ان کے متبعین سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی اپنے رب سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ان سے محبت کی اور انھیں اپنی محبت کے لئے منتخب کیا اور ان کے دلوں میں اپنی محبت ڈالی، چنانچہ اللہ ان کے یہاں تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے، ان کے دل اللہ کی محبت سے معمور ہیں، جب انھوں نے اللہ سے محبت کی تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان سے ایک اور محبت فرمائی جو ان کی محبت کے بدلہ میں تھی۔ ہمارا رب ودود ہے، اپنی معرفت اور خوبصورت صفات کے ذریعہ اپنے اولیاء کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرتا ہے، اپنے عفو وکرم اور اپنی رحمت کے ذریعہ اپنے گنہگار بندوں کے دلوں میں اپنی محبت جاگزیں کرتا ہے۔ اپنے رزق، کشادہ نعمتوں، لطف وکرم اور عیاں ونہاں احسانات کے ذریعہ تمام مخلوقات کے دلوں میں اپنی محبت ڈالتا ہے۔ وہی رب تو ایسا محبوب اور مودود ہے جو اس بات کا حقیقی مستحق ہے کہ اس سے اس کی ذات وصفات اور افعال وکمالات کی بنا پر محبت کی جائے۔ اللہ کی محبت اس کے اولیاء کے دلوں میں نسیم کے جھونکوں اور بدن کے لئے روح کی طرح ہے۔ پوری دنیا اور اس کا سارا ساز وسامان اس کی برابری قطعی نہیں کرسکتی۔اپنے رب کی اس محبت کے سامنے دنیا اور دنیا والوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ رب کی اس محبت کے سامنے ساری محبتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ یہ محبت بقیہ تمام احباب کے فراق پر تسلی کا سامان ہے۔ یہ مصائب کو آسان بنادیتی ہے۔ اس محبت کی بنا پر اطاعت کی مشقتوں میں لذت حاصل ہوتی ہے، اس رحمت ومحبت والے زمین وآسمان کے رب کے سامنے قیام کرتے ہوئے طویل اوقات گذرنے کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (اتنے دیر تک کھڑے ہوکر) صلاۃ پڑھتے تھے کہ آپ کے دونوں پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ ایسا کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہوں کی بخشش فرمادی ہے؟!!!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : کیا میں شکرگذار بندہ نہ بنوں۔ (یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے) ۔
اہل ایمان اپنے رب سے محبت کیسے نہ کریں کہ اس نے ہی اپنی عظیم نعمتوں اور بے شمار احسانات کے ذریعہ ان کے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرمائی ہے۔ انھیں وجود بخشا، حیات سے نوازا، بقا عطا فرمائی، حالات درست فرمائے، تمام امور کی تکمیل فرمائی، ضروریات وحاجیات وکمالیات سب کچھ دیا، احسان کے حقائق کی معرفت عطاکی، معاملات آسان کئے، مصائب ومشکلات کو دور کیا، بلاؤں کو ٹالا، شریعت اور قانون دیا اور اسے سہل بنایا، تنگی اور حرج کو دور فرمایا، صراط مستقیم کی وضاحت فرمائی، اعمال واقوال میں سیدھی راہ دکھائی، اس پر چلنا آسان فرمایا، شرعی اور قدری طور پر مدد کی، ناگواریوں اور مضرتوں کو دفع کیا، خوش آئند امور اور منفعتوں کو عطا کیا، اس کائنات میں جو کچھ ہے جس سے دلوں کو پیار اور جسم وروح کو محبت ہے وہ اللہ تعالی ہی کے جود وکرم سے ہے۔ اسی ذریعہ سے اس نے اپنی مخلوقات کے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرمائی ہے۔ ایک لطیف نکتہ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اللہ کے نام ودود کے ساتھ رحیم وغفور کانام جڑا ہوتا ہے کیونکہ انسان بسا اوقات اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والے کو معاف تو کردیتا ہے لیکن اس سے محبت نہیں کرتا، اور ایسے ہی کسی پر مہربان ہوتا ہے لیکن اس سے محبت نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالی کا معاملہ مختلف ہے اگر کوئی بندہ اس سے توبہ کرے تو اسے بخش بھی دیتا ہے، اس پر رحم بھی کرتا ہے اور ان سب کے باوجود اس سے محبت بھی کرتا ہے۔
اے اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس بات کو خوب اچھی طرح جان لو کہ آپ کے رب کے حسین ترین اور بزرگی والے بہت سے نام ہیں، جن کے اندر عظیم الشان معانی ہیں، پکارنے والے ان ناموں کے ذریعہ اسے پکارتے ہیں، ڈرنے والے ان ناموں کے وسیلہ سے اس سے امید لگاتے ہیں، جو شخص ان ناموں کے معانی کو سمجھ لے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرلے اس کا دل انوار الہی سے جگمگا اٹھے گا، اس کا سینہ علم ومعرفت کی بلندیوں کے لئے کھل جائے گا، اس کے اعضا اپنے رب کی اطاعت میں صاحب استقامت ہوجائیں گے، اس کا دل رنج وغم سے خالی اور محبت وتوکل اور انسیت وسعادت سے بھر جائے گا۔ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام "الودود" ہے۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جو مودت و محبت کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ محبت کی نہایت لطیف اور صاف ستھری قسم کا نام مودت ہے۔ ہمارا رب جل وعلا اپنے انبیاء ورسل اور ان کے متبعین سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی اپنے رب سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ان سے محبت کی اور انھیں اپنی محبت کے لئے منتخب کیا اور ان کے دلوں میں اپنی محبت ڈالی، چنانچہ اللہ ان کے یہاں تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے، ان کے دل اللہ کی محبت سے معمور ہیں، جب انھوں نے اللہ سے محبت کی تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان سے ایک اور محبت فرمائی جو ان کی محبت کے بدلہ میں تھی۔ ہمارا رب ودود ہے، اپنی معرفت اور خوبصورت صفات کے ذریعہ اپنے اولیاء کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرتا ہے، اپنے عفو وکرم اور اپنی رحمت کے ذریعہ اپنے گنہگار بندوں کے دلوں میں اپنی محبت جاگزیں کرتا ہے۔ اپنے رزق، کشادہ نعمتوں، لطف وکرم اور عیاں ونہاں احسانات کے ذریعہ تمام مخلوقات کے دلوں میں اپنی محبت ڈالتا ہے۔ وہی رب تو ایسا محبوب اور مودود ہے جو اس بات کا حقیقی مستحق ہے کہ اس سے اس کی ذات وصفات اور افعال وکمالات کی بنا پر محبت کی جائے۔ اللہ کی محبت اس کے اولیاء کے دلوں میں نسیم کے جھونکوں اور بدن کے لئے روح کی طرح ہے۔ پوری دنیا اور اس کا سارا ساز وسامان اس کی برابری قطعی نہیں کرسکتی۔اپنے رب کی اس محبت کے سامنے دنیا اور دنیا والوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ رب کی اس محبت کے سامنے ساری محبتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ یہ محبت بقیہ تمام احباب کے فراق پر تسلی کا سامان ہے۔ یہ مصائب کو آسان بنادیتی ہے۔ اس محبت کی بنا پر اطاعت کی مشقتوں میں لذت حاصل ہوتی ہے، اس رحمت ومحبت والے زمین وآسمان کے رب کے سامنے قیام کرتے ہوئے طویل اوقات گذرنے کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (اتنے دیر تک کھڑے ہوکر) صلاۃ پڑھتے تھے کہ آپ کے دونوں پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ ایسا کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہوں کی بخشش فرمادی ہے؟!!!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : کیا میں شکرگذار بندہ نہ بنوں۔ (یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے) ۔
اہل ایمان اپنے رب سے محبت کیسے نہ کریں کہ اس نے ہی اپنی عظیم نعمتوں اور بے شمار احسانات کے ذریعہ ان کے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرمائی ہے۔ انھیں وجود بخشا، حیات سے نوازا، بقا عطا فرمائی، حالات درست فرمائے، تمام امور کی تکمیل فرمائی، ضروریات وحاجیات وکمالیات سب کچھ دیا، احسان کے حقائق کی معرفت عطاکی، معاملات آسان کئے، مصائب ومشکلات کو دور کیا، بلاؤں کو ٹالا، شریعت اور قانون دیا اور اسے سہل بنایا، تنگی اور حرج کو دور فرمایا، صراط مستقیم کی وضاحت فرمائی، اعمال واقوال میں سیدھی راہ دکھائی، اس پر چلنا آسان فرمایا، شرعی اور قدری طور پر مدد کی، ناگواریوں اور مضرتوں کو دفع کیا، خوش آئند امور اور منفعتوں کو عطا کیا، اس کائنات میں جو کچھ ہے جس سے دلوں کو پیار اور جسم وروح کو محبت ہے وہ اللہ تعالی ہی کے جود وکرم سے ہے۔ اسی ذریعہ سے اس نے اپنی مخلوقات کے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرمائی ہے۔ ایک لطیف نکتہ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اللہ کے نام ودود کے ساتھ رحیم وغفور کانام جڑا ہوتا ہے کیونکہ انسان بسا اوقات اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والے کو معاف تو کردیتا ہے لیکن اس سے محبت نہیں کرتا، اور ایسے ہی کسی پر مہربان ہوتا ہے لیکن اس سے محبت نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالی کا معاملہ مختلف ہے اگر کوئی بندہ اس سے توبہ کرے تو اسے بخش بھی دیتا ہے، اس پر رحم بھی کرتا ہے اور ان سب کے باوجود اس سے محبت بھی کرتا ہے۔
ایک بندہ اپنے رب سے بھاگتا ہے اور بڑے بڑے حرام کاموں کی
جرأت کرتا ہے، فرائض میں کوتاہی کرتا ہے لیکن اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی فرماتا
ہے، اس پر صبر کرتا ہے، اسے اپنی نعمتیں دیتا رہتا ہے ، اس کے لئے ایسے اسباب
فراہم کرتا ہے اور وعظ ونصیحت کے ایسے مواقع مہیا کرتا ہے جس سے وہ پلٹ کر اللہ کی
طرف سے آجائے، جس کی بنا پر اس کو توبہ کا شوق ہو، پھر جب وہ توبہ کرلیتا ہے ،
اپنے رب سے رجوع کرتا اور اس سے معافی مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس کے تمام جرائم
کو بخش دیتا ہے، اس کی برائیوں کو مٹادیتا ہے، اپنی محبت ومودت کو واپس اس پر
لٹادیتا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے اس کے کمال مودت کو دیکھئے کہ وہ گنہگاروں کی
توبہ سے خوش ہوتا ہےایسی عظیم ترین خوشی جس کا
اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں پر ان کے والدین، ان کی
اولاد بلکہ ساری انسانیت سے زیادہ مہربان ہے۔
جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ اللہ کے
فرائض کی ادائیگی کرکے اس کی قربت حاصل کرے، پھر اس کے بعد نوافل کی ادائیگی سے
مزید قریب ہوتا رہے، صوم وصلاۃ، صدقہ وخیرات کرے، مخلوقات کے ساتھ ہرقسم کا حسن
سلوک کرے کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی نفع رسانی کو پسند کرتا ہے۔ ایسے لوگوں
سے محبت کرتا ہے جو اس کے بندوں کے ساتھ رفق ونرمی کا برتاؤ کریں، ان کے ساتھ اچھا
سلوک کریں، خیروبھلائی کی طرف ان کی رہنمائی کریں، شروبدی سے انھیں آگاہ کریں۔
ایک عظیم چیز جو آپ کے لئے اللہ کی محبت حاصل کرنے میں
معاون ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کا کلام فکر وتدبر کے ساتھ پڑھیں، اس کے
معانی ومفاہیم کو سمجھیں، اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوں، اللہ تعالی کے ذکر سے
آپ کی زبان تر رہے۔ آپ اس بات کو خوب
اچھی طرح جان لیں کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اللہ تعالی آپ سے محبت کرے گا، اور
جب آپ سے محبت کرے گا تو آپ کے ساتھ ہوگا، آپ کے حرکات وسکنات کو درست فرمائے
گا، آپ کی دعائیں قبول فرمائے گا، آپ کو اپنا مقرب صاحب مرتبہ بنائے گا۔ حدیث
قدسی میں ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم اپنے رب کریم سبحانہ وتعالی سے روایت کرتے ہیں: (( برابر میرا بندہ نوافل کے
ذریعہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو اس کا
کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس
کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا
ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے میں اسے عطا کرتا ہوں، اور اگر وہ میری پناہ تلاش
کرتا ہے تو اسے میں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں، اور کوئی کام جسے میں کرنا چاہوں
اس میں کبھی پس وپیش نہیں ہوا جیسا کہ اپنے مومن بندے کی جان قبض کرنے میں مجھے
تردد ہوا، میرے بندے کو موت ناگوار ہے اور مجھے اس کی ناخوشگواری ناگوار ہے۔)) اسے
امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
اللہ کے نام ودود کی ایک جلال وعظمت یہ بھی ہے کہ اللہ
تعالی اپنے اولیاء کو اپنی مخلوقات کی محبت
سے بھی نوازتا ہے چنانچہ آسمان
وزمین میں بسنے والے اللہ کے بندوں کے دلوں میں اللہ کے نیک وصالح بندوں کی عظیم
ترین محبت ومودت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا
ارشاد ہے: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ
وُدًّا} [مريم: 96] بے شک جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کئے عنقریب رحمن
ان کے لئے محبت پیدا کردے گا۔
اس عظیم نام کا ایک جلال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے میاں
بیوی کے درمیان مودت ورحمت کے اعلی تعلقات کو اپنی توحید الوہیت اور کمال رحمت کا
نشان بنایا ہے چنانچہ ارشاد ہے: {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ
أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ
فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [الروم: 21] اور اس کی نشانیوں میں سے
ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان
محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں
ہیں۔
مودت وہ صفت ہے جس کو اللہ
تبارک وتعالی نے باہم دست وگریباں دوفریقوں کے انجام کے طور پر پسند فرمایا
ہے، چنانچہ ارشاد ہے: {عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ
عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً} [الممتحنة:7] کیا
عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں مودت پیدا کر دے۔ یعنی
بغض کے بعد محبت، نفرت کے بعد مودت اور فرقت کے بعد الفت۔
اس عظیم نام پر ایمان کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ آپ کے دل میں اللہ کی توقیر اور اس کا پوری طرح قدر واحترام ہو، اس کے ساتھ ہمیشہ اچھا گمان رکھیں، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں، اس کے پسندیدہ نیک اعمال کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کریں، مباح کاموں کو بھی خیر وبھلائی اور اطاعت وفرمانبرداری کا ذریعہ بنالیں، مخلوق کے ساتھ آپ مودت کا معاملہ رکھیں، آپ دوسروں سے الفت ومحبت کریں دوسرے آپ سےالفت و محبت کریں، جیسا کہ مسند احمد کی ایک صحیح حدیث میں مروی ہے: ((المؤمن يألف، ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف))، مومن انسیت والا ہوتا ہے، اس شخص میں کوئی خیر نہیں جسے نہ کسی سے انسیت ہو اور نہ ہی لوگوں کو اس سے انسیت ہو۔
اس عظیم نام پر ایمان کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ آپ کے دل میں اللہ کی توقیر اور اس کا پوری طرح قدر واحترام ہو، اس کے ساتھ ہمیشہ اچھا گمان رکھیں، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں، اس کے پسندیدہ نیک اعمال کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کریں، مباح کاموں کو بھی خیر وبھلائی اور اطاعت وفرمانبرداری کا ذریعہ بنالیں، مخلوق کے ساتھ آپ مودت کا معاملہ رکھیں، آپ دوسروں سے الفت ومحبت کریں دوسرے آپ سےالفت و محبت کریں، جیسا کہ مسند احمد کی ایک صحیح حدیث میں مروی ہے: ((المؤمن يألف، ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف))، مومن انسیت والا ہوتا ہے، اس شخص میں کوئی خیر نہیں جسے نہ کسی سے انسیت ہو اور نہ ہی لوگوں کو اس سے انسیت ہو۔
آپ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے وہی پسند کریں جو خود اپنے
لئے پسند کرتے ہیں۔ ان کے لئے خیر وبھلائی کو پسند کریں، اپنی زبان اور اپنے ہاتھ
سے انھیں کسی قسم کی تکلیف اور اذیت نہ پہنچائیں۔ اس بات سے پوری طرح خبردار رہیں
کہ ان کے مردہ ہونے کی صورت میں ان کا گوشت نہ کھائیں، یعنی ان کی غیبت نہ کریں۔
آپ لوگوں کے درمیان اصلاح کا ذریعہ بنیں، دوریاں کم کرنے، اختلافات کی خلیج پاٹنے
، اتحاد واتفاق پیدا کرنے اور ٹوٹی لڑیوں کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ اپنے تمام اقوال
وافعال میں مبارک بنیں، اس بات کو خوب اچھی طرح جان لیں کہ پوری کائنات آپ کے لئے
مشغول ہے ، آپ کی مصلحت کی خاطر پیدا کی گئی ہے، عرش کے اٹھانے والے فرشتے اور
عرش کے آس پاس کے فرشتے آپ کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں، جن فرشتوں کو آپ کی
حفاظت کے لئے مامور کیا گیا ہے وہ آپ کی حفاظت کررہے ہیں، جن فرشتوں کو بارش
برسانے اور پودے اگانے کا کام سپرد کیا گیا ہے وہ آپ کے رزق ومعیشت کا انتظام
کررہے ہیں۔ آسمانوں کو ان کاموں کے لئے مسخر کیا گیا ہے جن میں آپ کی مصلحت ہے،
سورج وچاند اور تارے آپ کا وقت بتانے اور وقت کا حساب کرنے کے لئے مسخر ہیں اور
مسلسل رفتار میں ہیں، فضائیں ، ہوائیں، بدلیاں، پرندے اور جو کچھ زمین وآسمان کے
درمیان ہے آپ کے لئے مسخر کردیا گیا ہے،
زمین ، پہاڑ ، دریا، سمندر، درخت ، پودے، پھل پھول ، حیوانات بلکہ اس روئے
زمین پر جو کچھ ہے آپ کی خاطر ہے۔ اگر آپ اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو
قطعی شمار نہیں کرسکتے۔
اے انسان !ظالم اور
ناشکرا نہ بن، عادل اور شکرگزار بن، تیرے رب کے فضل وکرم اور تجھ سے اس کی محبت
ومودت کا سلسلہ جاری رہے گا۔