الأربعاء، 17 ديسمبر 2014

عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرزمین عرب میں شہر مکہ کے اندر خاندان بنوہاشم اور قبیلۂ قریش میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نامی ونسب گرامی مختصراً یہ ہے:
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف جو اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان نرالی ہے۔  اللہ تعالی نے آپ کو جس بلند وبالا مقام پر فائز کیا اور اپنے بندوں میں جس مقبولیت ومحبوبیت سے سرفراز فرمایا اس تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ آپ اولاد آدم کے سردار ہیں۔ روز محشر میں آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک سب آپ کے پرچم تلے ہوں گے۔ شفاعت عظمی[[1]] والے بھی آپ ہیں اور مقام محمود[[2]] والے بھی آپ ہی ہیں اور مقام وسیلہ[[3]] والے بھی آپ ہیں۔
آپ وہ ہیں جن  کے اخلاق عظیم کی خود رب ذوالجلال نے گواہی دی ہے۔ فرمایا: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ [القلم:۴] (اور بے شک آپ بڑے عمدہ اخلاق کے مالک ہیں) نیز آپ کے ذکر مبارک کو رب کریم نے رفعت وسربلندی سے ہمکنار کردیا۔ ارشاد ہے: ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ [الشرح:۴] (اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام اللہ کے نام کے ساتھ جوڑا گیا۔ کلمۂ شہادت میں اگر ایک طرف رب کے توحید کی شہادت ہے تو دوسری طرف آپ کی رسالت وعبدیت  کی شہادت ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ کی توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ آپ کی رسالت کا اقرار نہ کرے۔ اذان میں، اقامت میں، جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں، خطبۂ نکاح میں، صلاۃ جنازہ میں، غرضیکہ متعدد اہم مقامات پر کلمۂ شہادت کا تذکرہ اور تکرار کیا جاتا ہے۔
آپ وہ ہیں کہ قرآن پاک کے اندر اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کی قسم کھائی ہے، ارشاد ہے: ﴿لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ [الحجر: ۷۲] [تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے]۔
امام طبری نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ معزز کوئی ہستی پیدا نہیں فرمائی اور نہ میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے علاوہ کسی اور کی زندگی کی قسم کھائی ہو)[4](۔
آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے پیدائش کے وقت سے ہی آپ کی برکتوں کا ظہور فرمایا۔آپ کی ماں آمنہ نے آپ کی برکتیں دیکھیں، آپ کو دودھ پلانے والی خاتون حلیمہ سعدیہ نے آپ کی برکتیں دیکھیں۔
حسن سیرت وجمال صورت میں بھی اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے مثال بنایاتھا، آپ کا رخ زیبا ماہتاب کی طرح دمکتا تھا، آپ کی ہتھیلیاں ریشم سے زیادہ نرم تھیں، آپ کا پسینہ اور آپ کے بدن سے نکلنے والی خوشبو مشک وعنبر سے زیادہ عطربیز تھی۔
آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو جامع کلمات سے نوازا تھا، آپ کی احادیث مختصر الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن ان  میں معانی کا ایک دریا موجزن ہوتا ہے۔ قیامت تک آپ کی احادیث کی شرحیں کی جاتی رہیں گی پھر بھی تشنگی محسوس کی جائے گی۔
آپ وہ تھے کہ انبیاء سابقین نے آپ کی آمد کی خوشخبری سنائی تھی، آپ کی بعثت کے لئے ابراہیم خلیل نے دعا مانگی تھی، آپ کی نوید عیسیٰ مسیح نے دی تھی۔
آپ وہ ہیں کہ سارے نبیوں سے آپ کے لئے عہد لیا گیا تھا، آپ تمام انس وجن کی طرف نبی ورسول بناکر مبعوث کئے گئے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ [سبأ: ۲۸] (ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے) نیز ارشاد ہے: ﴿وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ﴾ [الأحقاف:۲۹] (اور یاد کرو جب کہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے۔)
آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنا خلیل بنایا تھا، صحیح مسلم کی حدیث ہے: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا([5](بے شک اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
آپ وہ ہیں کہ جن پر اللہ اور اس کے ملائکہ صلاۃ بھیجتے ہیں اور جن پر صلاۃ وسلام بھیجنے کا حکم قرآن پاک میں خود اللہ نے دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [الأحزاب:۵۶] (اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر صلاۃ)[6]( بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلاۃ بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو)۔
آپ وہ ہیں کہ اللہ نے آپ کو سارے اہل ایمان کے لئے اسوہ اور قدوہ بنایا ہے: ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ [الأحزاب:۲۱] (یقیناً تمھارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ [موجود] ہے)۔
آپ وہ ہیں کہ توریت وانجیل میں آپ کا ذکر جمیل موجود ہے: ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ﴾ [الأعراف:۱۵۷] (جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں)۔
آپ وہ ہیں کہ آپ کی عظمتوں کے گواہ صرف دوست ہی نہیں بلکہ دشمن بھی ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو آپ کی مدح سرائی اور ثناخوانی میں رطب اللسان ہیں۔
جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چڑھتے ہیں ان کے چڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آپ سے محبت کیوں کرتے ہیں، کیوں آپ کے دین میں داخل ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، کیوں دین اسلام اور قرآن مجید تحریف سے محفوظ ہے، کیوں اسلام کی تعلیمات نہایت آسانی سے دل میں اترجاتی ہیں۔!!
ہمارا ان دشمنان اسلام سے یہ کہنا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بے پناہ محبت نہ ہو اور آپ کے لئے یہ جذبۂ فدایئت نہ ہو تو ذرا  کوئی اور ایسا محبوب لائیں تو سہی جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر بنایا جاسکے۔!!
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں نہ کی جائے، آپ ہی تو ہیں جنھوں نے:
×    بندوں کو اللہ سے جوڑا، انھیں رب کی سچی توحید سکھائی، ہرطرف سے کاٹ کر خالق کا بندہ بنایا، ہرکفر وشرک سے ہٹاکر صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ بندوں کے دلوں میں اللہ کی محبت، اللہ کا خوف، اللہ پر توکل اور اللہ سے امید جیسی قلبی عبادتوں کی تخم ریزی کی، اللہ سے طلب اور اسی سے استعانت واستغاثہ، دعا وفریاد نیز اسی کے لئے نذر ونیاز اور ذبح وقربانی کی تعلیم دی۔
×    آپ ہی تو ہیں جنھوں نے قلب وروح اور جسم وجان کی طہارت کی تعلیم دی اور طہارت کو نصف ایمان قرار دیا۔
×    آپ ہی تو ہیں جنھوں نے صلاۃ وزکاۃ، صوم وحج اور دیگر بے مثال عبادات کی رہنمائی کی جس کے ذریعہ حقیقی سکون واطمینان اور سعادت ومسرت سے ہمکنار کیا۔
×    آپ ہی تو ہیں جو بے مثال اخلاق اور عظیم الشان خوبیوں میں ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہیں، سب سے بڑے بہادر، سب سے بڑے عاقل ودانا، سب سے بڑھ کر سخی اور فیاض، عفو ودرگذر کے پیکر، سب سے زیادہ حیادار، امانت دار اور راست باز، سب سے زیادہ تکبر سے دور اور متواضع، سب سے زیادہ عہد کے پابند، چہرے پر ہمیشہ بشاشت، الغرض آپ بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے۔ اپنی امت پر بے انتہا شفقت فرمانے والے اور ان کی بھرپور ہمدردی وخیرخواہی کرنے والے تھے۔
×    آپ ہی تو ہیں جنھوں نے انسانیت کو جہالت کی راہ سے نکال کر علم کی راہ پر ڈالا، اندھیروں سے نکال کر اجالے کی راہ پر لگایا، موت کے منہ سے نکال کر زندگی عطاکی، اندھوں کو بینا اور بہروں کو شنوا کیا، جہنم کی راہ پر بگٹٹ دوڑنے والوں کو جنت کی شاہراہ پر ڈالا، شراب خوری، زناکاری، بدکاری، سٹہ بازی، جنگ وخونریزی اور بدترین جاہلیت سے نکال کر ایمان واسلام، اخلاق وآداب، امن وآشتی اور صالحیت کا پیکر بنایا۔
×    آپ ہی تو ہیں جن کے وسیع احسانات اور جن کی کشادہ رحمتیں صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جناتوں پر بھی ہیں، صرف اپنوں پر نہیں بلکہ بیگانوں پر بھی ہیں، صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں پر بھی ہیں، صرف مردوں پر ہی نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں پر بھی ہیں، صرف چوپایوں پر ہی نہیں بلکہ چرند وپرند اور کیڑے مکوڑوں پر بھی ہیں، امیر وغریب، طاقتور اور کمزور سب کو آپ کی رحمت کے خزانے سے کچھ نہ کچھ ضرور حصہ ملا ہے۔ سچ ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ [الأنبياء:۱۰۷] (اور ہم [اللہ تعالی] نے آپ کو سارے جہان والوں کے لئے رحمت بناکر ہی بھیجا ہے)۔
لوگو! اگر اس ذات سے محبت نہ کی جائے گی تو پھر کس سے کی جائے گی۔!!!
لیکن یاد رکھو محبت صرف زبانی دعوے کا نام نہیں ، وہ ایک ایسا شعوری قلبی عمل ہے جس کے اثرات انسان کے عمل وکردار پر نمایاں ہوتے ہیں۔ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب بجالانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کی ادائیگی کے بغیر محبت نہیں۔ یہی وہ محبت ہے جو اللہ کے نزدیک قابل قبول اور دنیا وآخرت میں باعث فوز وفلاح اور راز سعادت ونجات ہے۔




[[1]] جب میدان محشر میں آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک جمع ہوں گے اور اس کی ہولناکیوں کو جھیل رہے ہوں گے لوگ شفاعت کی غرض سے اپنے باپ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ اپنی غلطی اور فی الحال اللہ کے شدید ترین غضب کا ذکر کرکے شفاعت سے انکار کردیں گے، اس کے بعد اللہ کے پہلے رسول نوح  علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ بھی معذرت کردیں گے، اس کے بعد لوگ ابراہیم علیہ السلام اور موسی وعیسی علیہم السلام کے پاس جائیں گے یہ لوگ بھی شفاعت سے انکار کردیں گے، پھر لوگ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ شفاعت فرمائیں گے اور اللہ رب العزت آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ یہ شفاعت عظمی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے۔ اس کا ذکر صحیحین میں موجود ہے۔
[[2]] مقام محمود وہ مقام ہے جب ساری مخلوق آپ کی تعریف کرے گی، شفاعت عظمی اور میدان محشر کے دیگر مواقف اس میں شامل ہیں۔
[[3]] "وسیلہ" جنت کا ایک مخصوص مقام ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی وضاحت آئی ہے۔
([4])  تفسیر طبری ۱۷/۱۱۸.
([5]) اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب  المساجد ومواضع الصلاة باب  النهى عن بناء المساجد على القبور میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۵ باب :۳ حديث:۲۳-(۵۳۲)۔
([6]) صلاۃ کا ترجمہ رحمت سے کرنا ضعیف ہے، صلاۃ رحمت سے بڑی کوئی اور  چیز ہے جس میں رحمت کے علاوہ مدح وثنا، تبریک وتقریب اور رفع ذکر وغیرہ داخل ہے جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی تحقیق فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو جلاء الافہام کا تیسرا باب صفحہ ۹۴ تا ۱۱۹۔