الخميس، 22 مايو 2014

اگر اور کاش کہہ کے حسرت کرنا؟؟؟


بعض لوگ کسی ناپسندیدہ  واقعہ کے ہوجانے کے بعد یوں کہا کرتے ہیں:  "اگر میں نے ایسا کرلیا ہوتا تو ایسا ہوگیا ہوتا" -  یا – "کاش  میں نے ایسا کرلیا ہوتا تو ایسا ہوگیا ہوتا "۔ 
کسی مطلوبہ امر کے فوت ہوجانے پر اس طرح کی حسرت کرنا ایک عام اعتقادی غلطی ہے جس سے خود باز رہنا اور دوسروں کو منع کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ تقدیر پر ایمان کے خلاف ہے۔یہ ایک ایسی فضول، لغو اور بے فائدہ   حسرت ہے  جسے کبھی واقعہ بنایا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: "خود کے لئے منفعت بخش کاموں کے حریص بنو، اللہ سے مدد  کے طلب گار رہو، عاجز نہ بنو،  اگر تمھیں کچھ [مصیبت]  پہنچ جائے تو یہ مت کہو : اگر میں نے ایسا کرلیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوگیا ہوتا۔ لیکن اس طرح کہا کرو: اللہ نے جو کچھ مقدر کیا اور جو چاہا وہی ہوا۔ کیونکہ اگر [اور کاش] شیطانی عمل کے دروازے کھول دیتا ہے"۔ 
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر یا کاش کا استعمال کیا ہمیشہ ہی منع ہےیا کبھی اس کا استعمال جائز بھی ہے؟ اس کا  جواب تفصیل چاہتا ہے
-    اگر کوئی یوں کہے کہ اگر[یا کاش]  مجھے آپ کی آمد کی خبر ہوئی ہوتی تو میں ضرور آپ سے ملاقات کرتا۔ تو ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں  کیونکہ یہ محض ایک خبر ہے جس میں مخاطب کو اپنے قلبی جذبات کی اطلاع دی جارہی ہے، اس میں تقدیر کے خلاف کوئی بات نہیں۔ 
-    اگر کوئی یوں کہے کہ اگر [ یا کاش] میرے پاس استطاعت ہوتی تو میں حج کرلیتا ۔ تو ایسا کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں  کیونکہ یہ ایک کار خیر کی تمنا ہے اور اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بخاری ومسلم میں مروی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا: "اگر مجھے وہ چیز پہلے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا اور میں بھی عمرہ کرکے اپنے احرام کھول دیتا"۔ 
-    اگر [اور کاش] کہنے کی تیسری صورت اوپر ذکر کی ہوئی ممنوعہ صورت ہے جس میں تقدیر پر ایمان کے بجائے اس کے خلاف ایک فضول حسرت پائی جاتی ہے۔