الأحد، 11 أكتوبر 2015

مناظرہ کوکن

 مناظرہ کوکن
غالباً ششماہی کی چھٹیاں تھیں، سنہ 1998 یا 1999 کی بات ہے۔ اس وقت ہم ہندستان کے مشہور صوبے مہاراشٹر کے ضلع تھانے کے ایک معروف مسلم اکثریتی علاقے کوسہ ممبرا میں رہائش پذیر تھے۔ سیر وتفریح نیز دعوت وتبلیغ کی غرض سے کوکن کے ایک پرفضا مقام کا انتخاب کیا گیا ۔ ندی کے کنارے آم اور کاجو کے باغیچوں والا گاؤں،ایک جانب سرسبز وشاداب باغات  اور کھیتیاں اور دوسری جانب پہاڑیوں کا خوبصورت سلسلہ، علاقہ کوکن کے کھیڑ ضلع کی سونس نامی بستی، گاؤں کے درمیان ایک شاندار مسجد تھی اور مسجد کے قریب ایک کھلا میدان۔ صلاۃ عشاء سے فارغ ہونے کے بعد اسی میدان میں حسب ضرورت کرسیوں ، روشنی اور پردے کا انتظام کرکے گاؤں کے سبھی مرد وعورت بچوں سمیت اکٹھا ہوجاتے اور ایک جلسہ کرلیا جاتا۔ مکرمی مقصود علاؤ الدین سین حفظہ اللہ اس پورے پروگرام کے منتظم کار تھے۔ دن میں سوال وجواب کی مجلس کے لئے ایک گھر کا انتظام کیا گیا تھا۔
ایک دن کی بات ہے ابھی دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر بیٹھے ہی تھے کہ مکان کے باہر جیپ کی دو گاڑیاں آکر رکیں، اس میں سے مختلف قسم کے لباسوں میں ملبوس افراد برآمد ہوئے۔ کوئی ٹوپی لگائے ہوئے ، کوئی پگڑی باندھے ہوئے، پگڑیاں بھی الگ الگ شکلوں کی، کوئی شیروانی پہنے ہوئے تو کوئی صدری زیب تن کئے ہوئے۔ وہ لوگ جیپ سے اتر کر ہم لوگوں کی سمت ہی آنے لگے ، میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جب تک کوئی جواب دیتا وہ کمرے میں داخل ہوچکے تھے۔ آخر ان ہی لوگوں سے پوچھنا پڑا کہ آپ لوگ کون ہیں؟ اور آپ کی آمد کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے حیرانی سے پوچھا: کیا آپ کو خبر نہیں؟ آپ کے گاؤں کے لوگوں نے ہی تو ہمیں مناظرہ کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے گاؤں میں علماء تشریف لائے ہیں جنھیں مناظرہ کرنا ہو آکر مناظرہ کرلیں۔ چنانچہ ہم لوگ مناظرہ کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ راقم سطور (عبد الہادی عبد الخالق مدنی)  نے کہا کہ جب آپ لوگ تشریف لاچکے ہیں تو ضرور کچھ گفتگو کرلی جائے گی اگرچہ ہم مناظرہ کے قائل نہیں اور نہ ہی اس کی دعوت دیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ساتھ شیخ عنایت اللہ سنابلی بھی تھے جو ابھی قریب ہی میں جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی سے فارغ ہوئے تھے۔  نیز عبدالودود صدیقی صاحب بھی تھے جنھوں نے اپنی علمی ودعوتی محنتوں سے اپنا اچھا نام روشن کیا ہوا تھا۔
راقم نے کہا کہ آغاز میں  سب کا مختصر تعارف ہوجائے ۔ چنانچہ تھوڑی دیر تعارف کا سلسلہ چلا ، آنے والوں میں کوئی یوپی کا، کوئی مہاراشٹر کا اور کوئی کیرالا کا غرضیکہ ہندستان کے شمال وجنوب ہرطرف کے لوگ اکٹھا تھے، میرے دل میں ایک خوف سا طاری ہوا کہ انھوں نے اپنے اچھے مناظرین کو پورے ہندستان سے مدعو کیا ہے اور پوری تیاری کے ساتھ مناظرہ کے لئے حاضر ہوئے ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ مناظرہ کی اطلاع تک نہیں ہے۔ بہرکیف میں نے کہا : ما شاء اللہ آپ لوگوں نے ہندستان کے کونے کونے سے اپنے مناظرین کو مدعو کیا ہے اور پوری تیاری کے ساتھ مناظرہ کرنے آئے ہیں۔ اس پر ان لوگوں کا جواب تھا کہ نہیں ، ہم لوگ یہیں ایک قریبی مدرسہ کے مدرسین ہیں، گاؤں والوں کی دعوت مناظرہ پہ ایک ساتھ چلے آئے ہیں، یہ سن کر اللہ کے فضل وکرم سے وہ خوف پوری طرح دل سے نکل گیا جو تھوڑی دیر کے لئے دل پر چھاگیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ لوگ وہی لوگ تھے جن کے ساتھ ہمارے تحریری مناظرے کا سلسلہ جاری تھا ، اور کئی مرتبہ تحریری سوال وجواب  بلکہ  جواب الجواب کے پرچے فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کو بھیجے جاچکے تھے[1]۔ دو بدو گفتگو کے اس موقعہ پر ہم نے ان کی جانب سے تحریر کردہ بعض باتوں سے متعلق روبرو تشفی کرلینی چاہی۔  چنانچہ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ہم نے پچھلی قسط میں جو تحریری جواب آپ کو بھیجا تھا اس میں ایک آیت کا ترجمہ ہم نے کنزالایمان سے نقل کیا تھا اور اس پر یہ نوٹ لگایا تھا کہ صاحبِ کنزالایمان نے یوں ہی ترجمہ کیا ہے جس پر آنجناب نے چیں بہ جبیں ہوکر  خیانت کا الزام لگایا ہے ، نقل میں تو کہیں کسی قسم کی کوئی ادنی خیانت نہیں ہوئی ہے۔ یہ ہمارے پاس کنز الایمان موجود ہے اسے دیکھ لیجئے، مسجد میں کنزالایمان کا ایک نسخہ رکھا ہے اسے بھی منگا کے دیکھ لیتے ہیں۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ کنزالایمان کی ایک کاپی ہم بھی اپنے ساتھ لائے ہیں مگر اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ترجمہ جس طرح آپ نے نقل کیا ہے ٹھیک اسی طرح مکتوب ہے۔ میں نے سوال کیا کہ پھر خیانت کا الزام چہ معنی دارد؟ انھوں نے کہا کہ خیانت یہ ہوئی ہے کہ آپ نے اس پر نوٹ کیوں لگایا کہ صاحبِ کنزالایمان نے یوں ہی ترجمہ کیا ہے ، گویا آپ اس کے غلط ہونے کا اشارہ کررہے ہیں[2]۔
سردست آئیے وہ آیت اور کنزالایمان کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں تاکہ بات زیادہ کھل کر سامنے آجائے۔ ارشاد باری ہے:{وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا} [مريم: 15] ترجمہ: (اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اورجس دن مردہ اٹھایا جائے گا)۔
راقم نے ان سے دریافت کیا کہ قرآن کریم میں دو الفاظ ہیں ایک (یبعث) اور دوسرے (حیا) اور ترجمہ کیا گیا ہے (مردہ اٹھایا جائے گا)، اب آپ مردہ کا عربی لفظ قرآن کریم سے دکھا دیجئے یا  حَيًّا کا اردو ترجمہ دکھلادیجئے۔ ظاہر ہے کہ کسی کو بھی اشکال ہوسکتا ہے ، اسی لئے نوٹ لگادیا گیا کہ کنزالایمان کا ترجمہ اسی طرح ہے، اس میں خیانت کی کون سی بات ہے جس کی بنا پر تحریری جواب میں آنجناب نے خیانت کا الزام مجھ پراور میرے اسلاف پر عائد کرنے میں اور دیگر دشنام طرازیوں میں کئی صفحات سیاہ کردیئے۔ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا لہذا انھوں نے ایک نیا سوال داغ دیا: کیا لفظی ترجمہ کرنا ضروری ہے؟ میں نے اس کا جواب دیا: قدیم علماء فرمایا کرتے تھے: العلم چھیچھڑۃ فکھچوھا۔  علم کی مثال چھیچھڑے کی طرح ہے لہذا اسے خوب کھینچو۔  یہ سن کر بہت سارے لوگوں کے منہ سے ہنسی نکل گئی اور سنجیدہ گفتگو میں ہلکا سا مزاح آجانے سے طبیعتیں گدگدا اٹھیں لیکن ساتھ ہی سامنے والے کو جھینپ جانا پڑا۔
راقم نے کہا: بات طویل نہ کیجئے۔ مختصر سوال کا مختصر جواب دے کر جلد از جلد معاملہ نمٹا دیجئے۔ چونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اس لئے وہ لوگ کہنے لگے کہ تحریری مناظرہ کو تحریری ہی رہنے دیجئے ۔ آپ تحریری سوال لکھ دیجئے گا ہم اس کا تحریری جواب دے دیں گے۔ آج زبانی مناظرے کے لئے حاضر ہوئے ہیں ، آج کسی نئے موضوع پر زبانی گفتگو کی جائے۔ آپ جو موضوع چاہیں اختیار کرلیں ، چاہے تقلید کا موضوع اختیار کرلیں جسے آپ شرک قرار دیتے ہیں حالانکہ حدیث کی معروف  کتب ستہ کے تمام مؤلفین ائمہ کرام بشمول بخاری ومسلم سب مقلد تھے۔ ناچیز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ آپ ائمہ حدیث کی بات چھوڑیئے خود آپ کے امام اعظم امام ابوحنیفہ بھی مقلد نہیں تھے، وہ ہمارے مسلک پر تھے۔  اس پر ان میں سے ایک صاحب بول اٹھے کہ امام خود تو مقلد نہیں ہوتا،  وہ مقلد (لام کے زبر کے ساتھ) ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا : وہ کیوں؟ انھوں نے کہا کہ آپ اصول فقہ کا یہ مشہور مسئلہ بھی نہیں جانتے کہ امام مجتہد ہوتا ہے باقی لوگ مقلد ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کی گفتگو قرآن وحدیث کی روشنی میں ہونی ہے لہذا کوئی قرآنی آیت یا حدیث پیش کیجئے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ} [الأعراف: 3] (اپنے رب کی جانب سے نازل کردہ کی اتباع کرو)۔ اصول فقہ نازل کردہ نہیں ہے۔  اس پر ان میں سے ایک صاحب غصہ میں آئے اور انھوں نے کہا کہ آپ تمام چیزیں قرآن وحدیث سے ثابت نہیں کرسکتے، میں کہتا ہوں کہ جس پنکھے کی ہوا سے آپ لطف اندوز ہورہے ہیں وہ پنکھا حرام ہے آپ اسے قرآن وحدیث سے حلال ثابت کیجئے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہی آپ کا سب سے بڑا مسئلہ تھا ، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: {خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا} [البقرة: 29] زمین کی ساری چیزیں اللہ نے تمھارے لئے پیدا کی ہیں ، کیا یہ پنکھا زمین سے خارج ہے۔ اس پر ان کا غصہ مستزاد ہوگیا اور کہنے لگے: تب تو شراب بھی حلال ہوجائے گی کیونکہ وہ بھی زمین کی ایک چیز ہے۔ میں نے کہا: واہ بھائی واہ! اب آپ شراب بھی حلال کرلینا چاہتے ہیں جسے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں صاف صاف حرام قرار دیا ہے۔
یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک صاحب بول پڑےکہ مناظرہ سے پہلے شرائط مناظرہ طے ہونا ضروری ہے۔ آج کی مجلس میں شرائط پر متفق ہوکر اسے لکھ لیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا : یہ لکھئے کہ یہ مناظرہ دو فریقوں کے درمیان ہونا طے پایا ہےایک اہل سنت وجماعت اور دوسرے فریق کے طور پر آپ اپنا جو نام چاہیں لکھ لیں، ثنائی لکھ لیں، تیمی لکھ لیں، نذیری لکھ لیں، غیرمقلد لکھ لیں وغیرہ وغیرہ، اس پر عبدالودود صدیقی صاحب نے کہا: ماشاء اللہ آپ نے ہمارے علم میں اضافہ کیا۔ اس پر بریلوی مناظر فاتحانہ انداز میں بول پڑا: اسی لئے تو آئے ہیں۔ راقم نے فوراً کہا: علم میں اضافہ کرنے کا ایک معنی یہ ہوتا ہے کہ آپ حقیقت سے دور فضول اور لغو بات کررہے ہیں جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: {قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ } [يونس: 18] (آپ کہہ دیجئے ، کیا تم اللہ کو ایک ایسی بات کی خبر دے رہے ہو جو اسے زمین وآسمان میں نہیں معلوم)۔ میں نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ کے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہے تھے نعوذ باللہ۔  چنانچہ وہ خاموش ہوگیا ۔ میں نے مزید کہا: ہم آپ کو اہل سنت نہیں مانتے ، یہ فقط آپ کا دعوی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس لئے ہم آپ کو اہل سنت نہیں لکھ سکتے البتہ ”اہل سنت بزبانِ خود“ یا ”اہل سنت حسب دعوی “لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چونکہ آپ ہمیں اہل حدیث نہیں مانتے اس لئے عدل کے تقاضے کے مطابق ہمارا نام بھی ”اہل حدیث بزبانِ خود“ یا ”اہل حدیث حسب دعوی “لکھ دیا جائے۔  چنانچہ اس پر اتفاق ہوگیا۔
ان کی اگلی شرط یہ تھی کہ مناظرہ کے لئے مولانا مختار احمد ندوی بذات خود تشریف لائیں ۔ اس وقت مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر تھے۔  اس کا جواب یہ دیا گیا  کہ آپ پہلے ہم جیسے طالب علموں سے بات کرلیجئے اور اس کے بعد اگر تشفی نہ ہوئی تو دیکھا جائے گا۔
بریلوی فریق کی طرف سے اگلا مطالبہ یہ تھا کہ موجودہ مہینہ کی آخری تاریخ تک جس کے آنے میں صرف چند ہی دن باقی تھے  مناظرہ ہوجانا چاہئے۔ اس مطالبہ میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن اس کے بعد شرائط مناظرہ میں لکھنے کے لئے جو بات کہی گئی وہ بڑی شاطرانہ تھی۔ انھوں نے کہاکہ شرائط مناظرہ میں لکھا جائے کہ اگر اس ماہ کے اختتام تک مناظرہ نہ ہوسکا تو اسے اہل حدیث کی شکست تسلیم کیا جائے گا کیونکہ اہل حدیث ہمیشہ مناظرہ سے فراراختیار کرتے ہیں جب کہ اہل سنت ہمیشہ مناظرہ کے لئے مستعد رہتے ہیں۔  وہ ایسا لکھے جانے پر بضد تھے اور ہماری جانب سے بھی اصرار تھا کہ ایسا نہیں لکھا جاسکتا، آخرکار مجھے غصہ آگیا اور میں نے بہ آواز بلند ان سے یہ  کہنا شروع کیا: فرض کیجئے آج مہینہ کی آخری تاریخ ہے، ہمارے مناظر سب کے سب پہنچ چکے ہیں، آپ کے ایک بڑے مناظر کا آنا باقی ہے ، ان کا انتظار ہوررہا ہے ، اتنے میں خبر آتی ہے کہ آپ کے بڑے مناظر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور ان کی جان چلی گئی، اس خبر کی بناپر مناظرہ نہیں ہوپاتا، اب آپ کہنے لگیں کہ مناظرہ نہیں ہوسکا لہذا اسے اہل حدیث کی شکست مانا جائے،  یہ کتنی غیرمعقول بات ہے کہ ایکسیڈنٹ ہوا آپ کے مناظر کا اور ہار گئے اہل حدیث، مرا آپ کا مناظر اور ہار گئے اہل حدیث، نہیں پہنچ سکا آپ کا مناظر اور ہار گئے اہل حدیث۔  جب میں نے یہ باتیں کہیں تو انھوں نے اپنی ضد چھوڑدی اور کہنے لگے کہ اچھا آپ ہی بتائیے کہ کیا لکھا جائے۔ چنانچہ اس انداز کی کوئی بات لکھ دی گئی کہ جلد از جلد مناظرہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
یکایک بریلوی  گروپ کی طرف سے ایک صاحب نےبطور شکایت  کہا کہ ہماری باتیں ریکارڈ کی جارہی ہیں، مجھے اس کی اطلاع نہیں تھی لہذا میں نے انکار کیا، اس پر انھوں نے ایک طاق کی طرف اشارہ کیا جس پر پردہ آویزاں تھا، انھوں نے کہا کہ پردہ کے پیچھے ٹیپ ریکارڈر رکھا ہوا ہے اور سب کچھ ٹیپ کیا جارہا ہے، اور واقعی ایسا کیا جارہا تھا ، ہمارے ایک ساتھی نے کہاکہ ہاں ہم ٹیپ کررہے ہیں ، ہم نے شیخ صاحب کو اس کی اطلاع نہیں دی تھی ، پتہ نہیں شیخ صاحب اجازت دیتے نہ دیتے، لیکن ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ ٹیپ نہ ہونے کی صورت میں یہ جھوٹی باتیں مشہور کریں گے اور ٹیپ کی صورت میں سچائی سب کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر وہ لوگ ٹیپ نہیں کرنا چاہتے تو مت ٹیپ کیجئے ۔ اس پر ہمارے ساتھیوں نے ہمارے سامنے ریکارڈ بٹن آف کردیا، پھر تھوڑی دیر بعد نظریں بچاکر آن کردیا،  دوسری جانب سے ایک صاحب نے کہا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ صرف آپ ہی ٹیپ کررہے ہیں  ہم بھی ٹیپ کررہے ہیں اور انھوں نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سائز کا ٹیپ ریکارڈر نکال کرسب کو  دکھایا۔ 
انھیں ساری باتوں میں اچھا خاصا وقت گزر گیا حتی کہ شام ہوگئی اور مجبوراً مجلس کو ختم کرنا پڑا کیونکہ ان لوگوں کو واپس اپنے مقام پر جانا بھی تھا [3]۔
جاتے جاتے ان میں سے ایک صاحب نے کہا کہ ہم تو پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے کہ آج کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں لیکن آپ لوگوں نے فضول باتوں میں پورا وقت برباد کردیا۔  شاید اسے ہی کہتے ہیں زبان کی تیزی۔
یہ تو ان کی بات تھی لیکن وہاں کے لوگوں کا تاثر یہ تھا کہ ان لوگوں نے کسی ایک موضوع پر ٹھہر کر بات نہیں کی تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچتے، بعض لوگوں سے یہ بھی کہتے سنا گیا کہ وہ لوگ بار بار چینل بدلتے رہے، کسی ایک موضوع پر جم کر گفتگو نہیں کی اور ایسا شاید اس لئے کہ وہ ایسا کرکے اپنی شکست اپنے ہاتھوں نہیں مول لے سکتے تھے۔
عبدالودود صدیقی صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ ہماری جانب سے جس خوبصورت انداز میں ان کے جوابات ہنستے اور مسکراتے ہوئے دئیے جارہے تھےاور کبھی کبھار معمولی غضب وغصے کا اظہار تھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کلاس روم میں ایک استاد اپنے بچوں کو تعلیم دے رہا ہو اور حسب ضرورت انھیں ڈانٹ بھی دیا کرتا ہو۔
هذا والحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم.[4]





[1] ”کوکن تحریری مناظرہ کی چند یادداشتیں“ کے عنوان سے اس پر الگ سے مزید تفصیل لکھی جائے گی ان شاء اللہ تعالی۔
[2] اس وقت پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ کسی کی بات کے غلط ہونے کا اشارہ دینا بریلوی لغت کے اعتبار سے خیانت ہے اور شاید خیانت کا یہ معنی بہت سے قارئین کے لئے بھی نیا ہوگا۔
[3] آج بتاریخ 30 ستمبر 2015 کو میں یہ تحریر سپرد قرطاس کررہا ہوں ،  ایک طویل مدت اس واقعہ پر گزرچکی ہے، یادداشت سے بہت سی باتیں محو ہوچکی ہیں، پھر بھی جو باتیں لکھی گئیں ان شاء اللہ فائدہ سے خالی نہیں ہیں۔ 
[4] یہ مضمون فیس بک پر اکتوبر 2015 میں پانچ قسطوں میں شائع کیا گیا۔ اس پر مقصود سین صاحب نے کچھ مفید نوٹ لگائے اس کو یہاں ذکر کرنا مناسب ہے:
((جس مناظرہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے گاوں کا ایک لڑکا جو دوران تعلیم رضاخانی ماحول میں پلا بڑها اور ان سے متاثرہوا پهر مناظرہ کے فریق مخالف کے مدرسے میں غالبا کمپوٹر ٹیچر کے اپنی خدمات انجام دے رہا تها وہاں وہ مزید عقائد باطلہ پر جم گیا- اور جب کبهی گاوں آتا تو اپنے رشتہ دار نوجوانوں جو میرے دوست و ساتهی تهے ان کو اپنے رضاخانیت کی تبلیغ کرتا- وہ لوگ اس کو خود بهی سمجهاتے اور علماء حق سے رجوع هونے کا مشورہ بهی دیتے-
انہی ایام میں شیخ محترم و شیخ عنایت اللہ و غیرہ کا دورہ کوکن(سونس) طئے هوا-تو ان لوگوں نے اس کو ان علماء سے مل کر اپنے اشکالات دور کرنے کو کہا- اس نے ان لوگوں سے کچہ علماء کو بهی بلانے کی بات کی تو ہمارے ساتهیوں نے اجازت دی لیکن اس میں مناظرہ کی بات نهیں هوئی تهی۔
اس کے بعد کی تفصیل تو پانچ قسطوں میں آ گئی هے-
جیسا کہ چوتهی اور پانچویں قسط میں شرائط مناظرہ کی بات آئی هے تو وہ مجلس ختم هونے کے بعد بهی مناظرہ کے انعقاد کا مسلہ زیر بحث رها اور طرفین سے شرائط مناظرہ پر زبانی و تحریری گفتگو هوتی رهی- اس بیچ کبهی سونس ان کا آنا هوتا تو وہ همارے هاته کا پانی یا شربت بهی نهیں پیتے تهے- هم سلام کرتے تو سلام کا جواب بهی نهیں دیتے-
ان کے اصرار پر اور جهوٹے پروپیگنڈہ کہ اهلحدیث مناظرہ کرنا نهیں چاهتے سے بچنے اور عوام پر حق واضح کرنے کے لئے هم بهی مناظرہ کے لئے پوری طرح تیار هوئے- جس کے لئے مرکزی جمعیت اهلحدیث کے ناظم اعلی شیخ عبدالوهاب خلجی اور جامعہ سلفیہ بنارس والوں سے خط وکتابت بهی هوئی-
اس کے علاوہ ممبئی میں بعض علماء کی میٹنگ بهی هوئی-
یہ سب تیاری جان کر کہ سچ مچ اهلحدیث مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہیں وه لوگ پلہ جهاڑنے لگے- پهر بهی هم نے آخری تحریر مناظرہ کے انعقاد اور شرائط کے تعلق سے دی اس کا آج تک جواب نهیں آیا اور نہ هی پهر کبهی مناظرہ کرنے پر اصرار هوا۔