ماہ رمضان کی فضیلت
اعداد: عبدالہادی عبدالخالق مدنی
ماہ رمضان سال کا نہایت بابرکت، پرعظمت اور صاحب فضیلت مہینہ ہے ، مختلف دلائل وبراہین سے اس کی فضیلت واہمیت آشکارا ہوتی ہے:
1- رمضان ہی وہ مہینہ ہے جسے اﷲ تعالی نے اپنی
متعدد کتابوں بالخصوص آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کے لئے منتخب فرمایا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مروی ہے : " أنزلت صحف إبراهيم أول ليلة من رمضان
، و أنزلت التوراة لست مضين من رمضان ، و أنزل الإنجيل لثلاث عشرة ليلة خلت من رمضان
، و أنزل الزبور لثمان عشرة خلت من رمضان ، و أنزل القرآن لأربع و عشرين خلت من رمضان
"([1]) (صحف ابراہیم کو رمضان کی پہلی شب میں نازل کیا گیا، توریت
کو رمضان کے چھ ایام گزرنے پر نازل فرمایا گیا، انجیل کو رمضان کی تیرہ راتیں
گزرنے پر نازل کیا گیا، زبور کو رمضان کے اٹھارہ ایام گزرنے پر نازل کیا گیا اور
قرآن مجید کو رمضان کی چوبیسویں شب کو نازل کیا گیا)۔ جہاں تک قرآن کریم کے نزول
کی بات ہے تو یہ امر سورہ بقرہ میں نہایت صاف اور واضح لفظوں میں مذکور ہے، ارشاد
باری ہے: {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ
مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} [البقرة:
185] (ماه
رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت
کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه
رکھنا چاہئے)۔
2- ماہ رمضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا صوم رکھنا فرض اور
اسلام کا ایک رکن ہے، چنانچہ متفق علیہ حدیث ہے: عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم (بني الإسلام
على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة
والحج وصوم رمضان )([2])۔
3- ماہ رمضان کو یہ
امتیاز بھی حاصل ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے صرف اسی کا صراحت کے ساتھ نام
ذکر فرمایا ہے جس سے اس کا شرف اور مقام ومرتبہ ظاہر ہوتا ہے۔آیت پہلے گزرچکی ہے۔
4- ماہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس کے دنوں میں صیام کے بعد راتوں
کو قیام مشروع کیا گیا چنانچہ متفق علیہ حدیث ہے: ( من قام رمضان إيمانا واحتسابا
غفر له ما تقدم من ذنبه )([3])
5- ماہ رمضان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس مہینہ میں ادا
کیا گیا عمرہ حج کے برابر ہے، چنانچہ متفق
علیہ حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابیہ کو مخاطب کرکے
فرمایا: ( فإذا كان رمضان اعتمري فيه فإن عمرة في رمضان حجة )[4]۔
6- ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مہینہ کا آغاز
ہوتے ہی تین خوشخبریاں حاصل ہوتی ہیں چنانچہ متفق علیہ حدیث ہے: ( إذا دخل شهر رمضان
فتحت أبواب السماء وغلقت أبواب جهنم وسلسلت الشياطين )[5] ((جب ماہ رمضان داخل ہوتا ہے تو آسمان([6]) کے
دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو
پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے))۔
7- ماہ رمضان مغفرت کا وہ عظیم الشان مہینہ ہے کہ جو شخص اس کو
پانے کے بعد بھی مغفرت سے محروم رہ گیا وہ انتہائی بدقسمت اور حرماں نصیب ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
وسلم
کا ارشاد ہے: (رغم
أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يغفر له
ورغم أنف رجل أدرك عنده أبواه الكبر فلم يدخلاه الجنة)[7]. ((اس آدمی کی
ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر صلاۃ (درود) نہ بھیجے، اور
اس آدمی کی ناک بھی خاک آلود ہو جس کے پاس ماہ رمضان آکر نکل گیا لیکن اس کی مغفرت نہ ہوسکی، اور اس آدمی کی ناک بھی خاک آلود
ہو جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو پایا لیکن والدین نے اسے جنت میں داخل نہ
کرادیا))۔
ان خصوصیات وامتیازات کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ومناقب
ماہ رمضان کے لئے ہیں ، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولائے کریم اس ماہ مبارک سے ہمیں
مستفید ہونے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین۔
[2] (أخرجه
البخاري في كتاب الإيمان باب الإيمان وقول
النبي صلى الله عليه و سلم ( بني الإسلام على خمس ) رقم 8 وأخرجه مسلم في الإيمان باب
أركان الإسلام ودعائمه العظام رقم 16)۔
[3] (أخرجه البخاري في
كتاب الإيمان باب تطوع قيام رمضان من الإيمان رقم 37 وأخرجه مسلم في صلاة
المسافرين باب الترغيب في قيام رمضان رقم 759)۔
[4] (أخرجه البخاري في أبواب العمرة باب عمرة في رمضان رقم 1690 وأخرجه
مسلم في الحج باب فضل العمرة في رمضان رقم 1256)۔
[5] (أخرجه البخاري في کتاب الصوم باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأى
كله واسعا رقم 1800 وأخرجه مسلم في الصيام
باب فضل شهر رمضان رقم 1079)۔
[6] یہاں آسمان سے مراد جنت ہے کیونکہ آسمان سے ہی گزر کر
کوئی چیز جنت تک پہنچتی ہے۔ دوسری روایت
میں جنت کا لفظ بصراحت موجود ہے۔
[7] (أخرجه الترمذي
في كتاب الدعوات باب قول رسول الله صلى
الله عليه و سلم رغم أنف رجل رقم 3545
وصححه الألباني في إرواء الغليل (1/ 36) وتخريجاته الأخرى.