الأحد، 6 يوليو 2025

ہجرت مدینہ کا نصیحت آموز واقعہ

 

الهجرة إلى المدينة وقفات ودروس

 

 

 

ہجرت مدینہ

کا  نصیحت آموز واقعہ

 

 

اعداد:

عبدالہادی عبدالخالق مدنی

کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار،سدھارتھ نگر،یوپی

داعی احساء اسلامک سینٹر،سعودی عرب


 

مقدمہ

الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:

زیر نظر کتاب  ” ہجرت مدینہ  کا  نصیحت آموز واقعہ “  دراصل ایک تقریر ہے جو احساء اسلامک سینٹر ہفوف ، سعودی عرب کے وسیع لیکچر ہال میں بتاریخ  16/ محرم الحرام 1437ہجری مطابق 29/اکتوبر  2015م بروز جمعرات کو پیش  کی گئی۔  اس کاویڈیو احساء اسلامک سینٹر کے چینل پر اپلوڈ ہے،  جس کا لنک یہ ہے: (https://youtu.be/TTZjGK9wL08   )۔ قارئین کے استفادے کے لئے  اسے تحریری شکل دی گئی اور  تحریر کے تقاضوں کے مد نظر  مناسب ترمیم اور ضروری حذف واضافے بھی کئے گئے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے ہر خاص وعام کیلئے نافع بنائے ۔اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔

عبد الہادی عبد الخالق مدنی

داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف ، سعودی عرب


 

 

ہجرت مدینہ کا  نصیحت آموز واقعہ

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ الطیبین الطاہرین وعلی أصحابہ الغر المیامین ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين. أما بعد :

ماہ محرم  سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے اور جب سن ہجری کا نام لیا جاتا ہے تو ہجرت کی یاد آتی ہے۔ اسی مناسبت سے ہجرت کو یاد کرنے کے لیے، ہجرت کے واقعے سے کچھ سیکھنے کے لیے ،اس کے دروس اور اس کی عبرتوں سے مستفید ہونے کے لیے یہ  چندباتیں پیش خدمت  ہیں۔  اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ رب ذوالجلال  ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہجرت نبوی سیرت مبارکہ کا ایک مختصر  لیکن نہایت اہم باب ہے۔  چنانچہ  جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو  یوں کہتے ہیں :   « محمد  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے،  40 سال پر اللہ نے آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا،  53 سال کی عمر میں آپ نے مدینہ ہجرت کی اور 63 سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی» ۔

گویا چار واقعات آپ کی زندگی کے اہم ترین واقعات قرار پاتے ہیں اور  ان کے ذکر سے پوری زندگی کا مختصر  بیان ہو جاتا ہے۔

۱ -  ولادت  با سعادت

۲ - نبوت و رسالت

۳ - ہجرت  مدینہ

۴ -  وفات و سفر آخرت

ہجرت مدینہ  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک بے حد اہم موڑ ہے۔ یہ  انتہائی اہم  ، تاریخی اور انقلابی واقعہ ہے ۔  اس واقعے پر  متعدد زاویوں سے ہمیں غور و فکر  کرنے کی ضرورت ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کیوں فرمائی؟

مکہ کی مبارک سرزمین  چھوڑ نے کی ضرورت کیوں پڑی؟

ہجرت  کے اسباب وعوامل اور محرکات  کیا تھے؟

ہجرت کا معنی کیا ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا واقعہ کس طرح انجام پایا؟

ہجرت کے لئے شہر مدینہ کا انتخاب کس طرح ہوا ؟

ہجرت کے واقعہ میں ہمارے لئے کیا سبق ہے؟

کیا ہجرت کا حکم اب بھی باقی ہے؟

وہ کونسی ہجرت ہے جو ہرمسلمان پر فرض ہے؟

وغیرہ وغیرہ

 جہاں تک یہ معاملہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کیوں فرمائی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ  جب اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو 40 سال کی عمر میں نبوت و رسالت سے سرفراز فرما یا اور آپ کو حکم دیا کہ  آپ مکہ والوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلائیں اور  انھیں شرک سے منع کریں ،  ان کو بتائیں کہ ایک  اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تو  مکہ والوں کے لیے یہ دعوت ان کے عقیدے کے خلاف تھی،  اس راستے کے خلاف تھی جس پر انھوں نے  اپنے باپ دادا کو چلتے ہوئے پایا تھا،  مکہ کے لوگ یہ دعوت بآسانی کیسے قبول کرسکتے تھے؟  وہ کہنے لگے:  سارے معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود  کو باقی رکھا ہے،  یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔  چنانچہ  مکہ والوں نے آپ اور آپ کی دعوت کی مخالفت شروع کردی۔

اسلامی عقیدے کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس کو قبول کرنے کی خاطر پرانے  باطل عقائد کو چھوڑنا    ہوگا۔  ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ  اپنے پرانے عقیدے  کو سینے سے لگائے ہوئے اسلام میں داخل ہوجائیں،  باقی عقیدوں اور  ادیان میں تو یہ ہوتا ہے کہ آپ  اپنے طریقے پہ  بھی قائم رہیں  اور ان کے عقائد واعمال بھی ساتھ میں شامل کرلیں  لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے۔  اسلام  کا کہنا یہ ہے کہ پہلے لا الہ کہہ کر سارے باطل معبودوں کا انکار کرو اور اس کے بعد الا اللہ کہہ کر  ایک اللہ   معبود برحق کا اقرار کرو ۔ پہلے  اپنے دل کو  کفر وشرک کی تمام آلائشوں ، نجاستوں اور گندگیوں سے پاک وصاف کرو  اور اس کے بعد اللہ کی توحید کا اقرار  کرو ۔ 

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعوت شروع کی کہ باپ  دادا کے طریقے کو چھوڑو،  ابراہیم علیہ السلام کے دین خالص  میں تم نے  اپنی طرف سے جو کچھ  اضافے  کر لیے ہیں ان کو چھوڑو ۔  وہ خالص اور اصل دین جو ابو البشر  آدم علیہ السلام کا دین تھا ، جو  ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا ، جو بلا اختلاف سارے نبیوں کا دین تھا ، اس سچے  دین کی طرف  آؤ۔ اہل مکہ کو  یہ دعوت سخت ناگوار گزری۔  وہی لوگ جو کل تک  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور  امین کہا کرتے تھے  ، آپ کی تعریف میں پیش پیش رہتے تھے،   اپنے اختلافی معاملات میں آپ کو جج بنایا کرتے تھے،  آپ کے فیصلے کو تسلیم کیا کرتے تھے،  وہی لوگ آپ کے دشمن ہو گئے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ بات ہم نہیں مان سکتے۔  نہ صرف یہ کہ دشمن ہو گئے بلکہ آپ پر مختلف انداز کی تہمتیں لگانے لگے۔ آپ کو جادوگر کہا ، آپ کو کاہن کہا ، آپ کو شاعر کہا ، آپ پر طرح طرح کی ظلم وزیادتی کو روا رکھا ،  آپ کے گلے میں کپڑے کا پھندا ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کی، آپ کے قتل کرنے  کے درپے ہوگئے اور جان سے مار دینے  تک کی سازش کی،  سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ آپ جادوگر ہیں لیکن  انہیں خود  اپنی بات پہ یقین نہیں ہوتا تھا کیونکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جادوگر تھے تو یہ کہنے والا آپ کے جادو سے محفوظ کیسے تھا ؟ صرف انہی لوگوں پر آپ کا جادو کیوں چلتا ہے جو آپ پر ایمان لاتے ہیں ؟  اگر آپ  واقعی جادوگر ہیں تو جو ایمان لائے اور  جو ایمان نہیں لائے دونوں  پر  آپ کا جادو چلنا چاہئے  لیکن کیا وجہ ہے کہ جو شخص جادو گر ہونے کا الزام لگا رہا ہے وہ آپ کے جادو کے اثر سے محفوظ ہے ؟ اور آپ کے جادو کا اثر قبول کرکے یہ الزام لگانے سے باز نہیں آتا؟    تو اس طرح جادو گر ہونے کی تہمت خود بخود  غلط ثابت ہوجاتی تھی۔

 کفار مکہ میں سے کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ آپ  پاگل ہیں۔ لیکن انھیں  اپنی اس تہمت پر بھی یقین نہیں ہوتا تھا۔  کیا پاگل ایسے ہوتے ہیں؟ آپ  جیسے اعلی اخلاق کے مالک ،  اتنی شاندار باتیں اور عمل وکردار میں اس قدر بلندی  اور عظمت ۔ بہر کیف وہ اپنی بات پہ مطمئن نہیں تھے ۔ صرف  اپنے دین کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے یہ ساری باتیں  کہا کرتے تھے اور جب اللہ تبارک و تعالی نے مدینہ کے کچھ خوش نصیبوں کو یہ سعادت  نصیب فرمائی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور مدینہ میں تیزی کے ساتھ اسلام بڑھنے لگا،  مدینہ کی بستی وہ سرسبز و شاداب اور وہ زرخیز زمین تھی کہ جہاں پر اسلام کا پودا تیزی سے پھلنے پھولنے لگا ۔ اس سے قبل  اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کی ظلم و زیادتی سے بچنے کے لیے   اپنے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ حبشہ ہجرت کر جائیں  لیکن  اہل مدینہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے ہجرت مدینہ کا حکم فرمایا۔

 حبشہ کی ہجرت اور مدینہ کی ہجرت میں فرق کیا ہے؟

  حبشہ کی ہجرت دار الامن یعنی امن وامان والی جگہ کی جانب ہجرت تھی۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حبشہ ہجرت کر جاؤ وہاں کا بادشاہ عدل پسند ہے،  اس کے پاس کسی پر ظلم نہیں ہوتا ۔   جب صحابہ کرام حبشہ پہنچ گئے تو مکہ والوں نے  انھیں واپس لانے کی خاطر حبشہ کے بادشاہ کے پاس تحفے تحائف کے ساتھ اپنے سفیر روانہ کئے ۔ ان سفیروں میں ایک شخص  عمرو بن  عاص  بھی تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے۔  رضی اللہ عنہ ۔  مکہ کے لوگوں نے حبشہ پہنچ کر وہاں کے  بادشاہ سے ان مظلوموں کے خلاف شکایت کی اور یہ مطالبہ کیا  کہ  ان کو  مکہ واپس بھیج دیا جائے۔   چونکہ بادشاہ  عدل  پسند تھا  اس لئے اس نے یکطرفہ  بات سن کر  کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ اس نے مسلمانوں کو بلایا  اور ان سے مکہ چھوڑ کر حبشہ میں پناہ لینے کی وجہ پوچھی ۔ اس موقعے پر  جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے ایک  شاندار تقریر کی  جس میں اسلام کی ساری بنیادوں کو بیان کیا  ۔ سیرت النبی میں اس واقعے کی تفصیلات پڑھنے کے قابل ہیں ۔ وہاں قرآن پاک کی آیات کی تلاوت کی گئی ۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے کے حالات کو بیان کیا  گیا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور امانت داری اور آپ کے اخلاق وکردار اور  مقام و مرتبے کو بیان کیا  گیا ۔ اس کے بعد  آپ پر ایمان لانے کی بات کہی  گئی ۔  بادشاہ نے یہ ساری  باتیں  سن کر  کہا :  اللہ کی قسم ! تم لوگ  اپنے دین پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہو،  میرے یہاں تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔  بہر کیف کہنے کا مقصود یہ ہے کہ  جہاں مسلمانوں نے پہلی ہجرت کی تھی وہ  امن والی جگہ تھی۔  مدینہ کی ہجرت اس سے مختلف تھی ، مدینہ امن والی جگہ بھی تھی اور  ایمان والی جگہ بھی تھی ۔ حبشہ  امن والی جگہ تو  تھی لیکن ایمان والی جگہ نہیں تھی ۔ حبشہ کا  نجاشی بادشاہ بعد میں مسلمان ہوا لیکن  اپنے اسلام کو ظاہر کر کے اسلام کی تبلیغ واشاعت کی ہو  ایسا نہیں ہوا۔  اس کے برخلاف مدینہ  کے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے اور وہاں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ واشاعت کی دعوت دی ۔  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو  اہل مدینہ کی تعلیم ودعوت کے لئے بھیجا۔  چنانچہ ان کی دعوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کے دونوں مشہور قبیلے اوس وخزرج میں سے کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں کم ازکم کسی ایک فرد نے اسلام کو قبول نہ کیا ہو۔   نہایت تیزی کے ساتھ اسلام مدینہ میں پھیلتا چلا گیا۔  اسلام کی روشنی سے منور ہوتا گیا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﵟوَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلۡإِيمَٰنَﵞ [الحشر: 9]   جنہوں نے دار ہجرت  یعنی مدینہ کو  اپنا ٹھکانہ بنایا اور جنہوں نے ایمان کو ٹھکانہ بنایا ۔ مدینہ  دارالامن والایمان تھا  جبکہ  حبشہ محض دار الامن تھا۔   یہ دونوں  ہجرتوں میں فرق ہے۔

 ہجرت کا معنی کیا ہوتا ہے ؟

عربی زبان میں ہجرت کے معنی ہوتا ہے: «  چھوڑنا » ۔

عام طور پر لوگ  جب کوئی چیز چھوڑتے ہیں تو ناپسندیدگی کی وجہ سے چھوڑتے ہیں لیکن ہجرت میں ایسا نہیں تھا،  مکہ کو چھوڑا گیا لیکن مکہ ناپسند نہیں تھا۔   محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلے تو آپ نے کہا :  

«  إِنَّكِ خَيْرُ ‌أَرْضِ ‌اللَّهِ، وَأَحَبُّ الْأَرْضِ إِلَى ‌اللَّهِ، وَلَوْلَا أَنَّ أَهْلَكِ أَخْرَجُونِي مَا خَرَجْتُ.»  مصنف عبد الرزاق  (5/ 248 )

 کہ اے مکہ تو اللہ کے یہاں نہایت محبوب سرزمین ہے اور تو نہایت بہترین سرزمین ہے ،  میری قوم کے لوگوں نے اگر مجھے نکالا نہ ہوتا تو میں تجھے نہیں چھوڑتا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ کو ضرور چھوڑا لیکن خوشی کے ساتھ نہیں چھوڑا، آپ نے تکلیف کے ساتھ چھوڑا ، اور یہی حال مسلمانوں کا بھی تھا۔    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی۔  ایک کے بعد ایک کر کے سب مدینہ روانہ ہونے لگے۔   ان لوگوں نے بھی بڑی مصیبت کے ساتھ  ہجرت کی ۔

کتنے تعجب کی بات ہے کہ اہل کفر اور اہل شر،  اہل خیر کو آسانی سے  اپنے دین پر عمل نہیں کرنے دیتے۔  آخر ایمان لانے والوں  کا کیا گناہ تھا؟  وہ کہتے تھے ہم  ایک اللہ پر ایمان لائے ہیں،  اسی کی عبادت کریں گے اور اسی کی طرف تم کو بھی دعوت دیتے ہیں۔  لیکن مکہ والوں  کو یہ چیز برداشت نہیں تھی۔  انہوں نے اطمینان سے انہیں عمل بھی نہیں کرنے دیا اور جب سب کچھ چھوڑ کے وہ مدینہ جانے لگے تو  بہ آسانی جانے بھی نہیں دیا۔  کوئی چھپ کے جاتا تھا ،کوئی بھاگ کے جاتا تھا ، کوئی اور کسی طرح سے جاتا تھا ۔ صرف ایک صحابی عمر فاروق رضی اللہ عنہ اعلان  کرکے گئے تھے۔  عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرنے کے لیے نکلے تو انہوں نے کہا:  جو  اپنی بیوی کو بیوہ اور   اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہو وہ  مجھے مدینہ جانے سے روکے۔   میرے بھائیو ایسا کیونکر ہوسکا؟  کیونکہ بنو عدی جو عمر رضی اللہ عنہ  کا قبیلہ تھا وہ ان کے ساتھ تھا اور قبیلہ مضبوط تھا ۔ جو کافر تھے وہ بھی ساتھ دیتے تھے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بھی آپ دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان بنو ہاشم کے  لوگ آپ کا تعاون کرتے تھے،  آپ کا ساتھ دیتے تھے،  اگرچہ وہ  خود  مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ آپ کے چچا ابو طالب نے ساتھ دیا اگرچہ  وہ مسلمان نہیں  ہوئے تھے۔  چچا عباس رضی اللہ عنہ نے جب تک اسلام نہیں قبول کیا تھا تب بھی ہمیشہ ساتھ دیا تھا ۔   بیعت عقبہ میں ساتھ دیا۔ آکر کے مدینہ والوں کے ساتھ بات چیت کی جبکہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔  قبائلی عصبیت جو عرب میں تھی اس کے ذریعے سے بہت سارا فائدہ ہوا ہے۔ یہیں سے علماء نے ایک مسئلہ یہ بھی نکالا ہے کہ سارے لوگ ایک طرح نہیں ہو سکتے۔ کبھی کبھی ہم یہ چاہتے ہیں کہ سارے لوگ بالکل ایک جیسے ہوجائیں۔  ایسا  نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی نے مختلف لوگوں کے مختلف حالات رکھے ہیں اور مختلف حالات میں مختلف لوگ مختلف عمل کریں گے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ سارے لوگ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سے اعلان کر کے ہجرت کریں تو کتنے لوگوں کے ساتھ کیا  کیا ہوجاتا۔  کتنے لوگوں کو قتل کر دیا گیا ہوتا ۔ کتنے لوگوں کو قید وبند کی صعوبت سے گزرنا پڑتا۔ کتنے لوگ کیسی کیسی مشقت میں مبتلا ہوتے۔  لیکن نہیں ، عمر رضی اللہ عنہ کو طاقت تھی تو وہ اعلان کر کے گئے ۔ جس کو طاقت نہیں تھی  وہ چھپ  کر گیا۔  ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے۔  کوئی چھوٹے درجے کا مسلمان ہے، کوئی بڑے درجے کا مسلمان ہے،  کوئی اس سے بھی بڑے درجے کا مسلمان ہے۔ اسلام کم اور زیادہ ہوتا ہے۔  اس میں درجات ہیں،  اور جس کی جیسی طاقت ہے وہ اپنی  طاقت کے مطابق  اسلام پر عمل پیرا ہے۔ یہ مسئلہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

آئیے ہجرت سے متعلق بعض صحابہ کے واقعات دیکھتے ہیں ۔

ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی ہجرت کا واقعہ نہایت دردناک اور عبرت انگیز ہے۔  ابو سلمہ رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرنے کے لیے نکلے تو ان کی بیوی کے خاندان والوں نے کہا:  ابو سلمہ تم جاتے ہو جاؤ،  ہماری بیٹی کو نہیں لے جا سکتے۔  چنانچہ  ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنی   بیوی  اور بچے   کو چھوڑ کر تنہا ہجرت کے لئے نکل گئے۔   آپ کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر سے جدا کردیا گیا۔ اس کے بعد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان کو  خیال آیا کہ  بچہ پر باپ کے خاندان کا حق ہے   لہذا انھوں نے بچے کو اس کی ماں سے چھین لیا ، ماں کی گود سے الگ کر دیا۔   صورت حال یہ ہوگئی کہ شوہر الگ ، بیوی الگ،  بچہ الگ ۔  کتنی تکلیف ہوئی ہوگی۔  صرف میاں بیوی کی علاحدگی کس قدر تکلیف دہ معاملہ ہے اور جب میاں ، بیوی اور بچے سب الگ الگ کردیئے جائیں  تو کس قدر تکلیف ہوگی۔  لیکن اللہ کے لیے انہوں نے یہ سب برداشت کیا۔

 صہیب رومی کی ہجرت کا واقعہ دیکھیے۔  ان کی کنیت تھی ابو یحیی ۔  روم کے باشندے تھے اور مکہ میں آکے بس گئے تھے ۔ تجارت وغیرہ کر کے انہوں نے اچھا خاصا مال کمایا تھا۔ جب  ہجرت کے لیے جانے لگے تو مکہ والے آڑے آئے۔  کہنے لگے:  صہیب !تم مکہ کے نہیں ہو،  تم روم سے  خالی ہاتھ آئے تھے،  تم نے  سارا مال مکہ میں کمایا ہے ، تم جہاں جانا چاہو جاؤ  لیکن ہم تمہیں مال لے کے جانے نہیں دیں گے۔  انہوں نے کہا : ٹھیک ہے مال لینے کے بعد جانے دو گے؟ مکہ والوں نے کہا:  ہاں ،  مال چھوڑ کر جاسکتےہو۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے  خوشی کے ساتھ پورا مال ان کے حوالے کردیا اور بدن پہ جو کپڑا تھا وہی پہنے ہوئے مدینہ ہجرت کرگئے۔   جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پہنچے اور اپنا  واقعہ سنایا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  ابو یحیی !تم اپنے سودے میں کامیاب ہو گئے۔   تم نے مال دے دیا اور اس کے مقابلے میں ہجرت کو اختیار کر لیا۔  یہ ہجرت اللہ کی طرف ہجرت تھی ،  رسول اللہ  کی طرف ہجرت تھی، شہر رسول کی طرف ہجرت تھی،  یہ ہجرت جنت حاصل کرنے کے لیے تھی،  جہنم سے بچنے کے لیے تھی ۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تمہارا سودا بالکل کامیابی کا سودا ہے،  اس میں کسی قسم کا گھاٹا نہیں ہے۔

 عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ہجرت کا واقعہ بھی بڑا عبرتناک ہے۔ طے  یہ ہوا کہ تین لوگ ایک ساتھ  ہجرت کریں گے۔  عمر رضی اللہ عنہ ،عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص۔  ان تین لوگوں نے ایک جگہ متعین کی۔  اور یہ طے  ہوا کہ یہ تینوں لوگ آکر وہاں ملیں گے پھر آگے مدینہ کا رخ کریں گے۔  اگر متعینہ وقت پر  تینوں پہنچ گئے تو خیر،  یعنی سب  کامیابی کے ساتھ نکل آئے اور اگر کوئی نہیں پہنچ پایا تو  باقی  اپنے وقت پہ نکل جائیں گے، پیچھے رہ جانے والے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا۔  چنانچہ متعین وقت اور مقام پر صرف  دو لوگ پہنچے، ایک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دوسرے عیاش بن ابی ربیعہ۔ یہ دونوں رفتہ رفتہ مدینہ پہنچ گئے۔ عیاش بن ابی ربیعہ جب مدینہ پہنچ گئے تو ان کو  مکہ واپس لے جانے کے لیے ان کے گھرانے سے ابوجہل اور ایک دوسراشخص آیا اور انھوں نے کہا کہ عیاش کی ماں نے یہ قسم کھائی ہے کہ جب تک عیاش واپس مکہ نہیں لوٹ کے آئیں گے تب تک وہ سر میں کنگھی نہیں کرے گی،  نہائے گی نہیں اور  دھوپ میں کھڑی رہے گی۔ کھانا پینا بھی نہیں کرے گی۔  ان لوگوں نے عیاش کو سمجھاتے ہوئے کہا:  اسلام تو ماں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے لہٰذا  مکہ واپس  چلو  اور ماں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاؤ۔ جب تمھاری ماں تم کو دیکھ کر  اپنے دل کو پرسکون اور مطمئن کر لے  اس کے بعد واپس چلے آنا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عیاش!  دیکھو تمہارے ساتھ دھوکا ہو رہا ہے ۔ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔  جہاں تک تمہاری ماں کی قسم کا معاملہ ہے کہ جب تک  اپنے بیٹے کو آنکھ سے نہیں دیکھ لے گی تب تک  کھانا نہیں کھائے گی،  دھوپ میں کھڑی رہے گی، سائے میں نہیں جائے گی تو یاد رکھو کہ  مکہ کی سخت دھوپ لگنے پر  خود بخود سائے میں چلی جائے گی اور جب زیادہ بھوک لگے گی، زیادہ پیاس لگے گی تو کھا بھی لے گی اور پی بھی لے گی ، تم اپنے ایمان کو بچانے کے لیے ہرگز اس طرح کا دھوکہ نہ کھاؤ۔  ایمان کو بچاؤ اور مکہ نہ جاؤ۔ عیاش  رضی اللہ عنہ  کے دل میں ماں کی محبت اور  ماں کی ممتا غالب آ گئی  اور انہوں نے واپس جانا طے کرلیا اور کہا کہ  ماں سے ایک بار مل کے واپس آجاؤں گا۔  عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :یہ لو میری اونٹنی  اور اگر کہیں بھی تمہیں خطرہ محسوس ہوگا تو میری اونٹنی بہت تیز رفتار ہے ، اس  کی پشت پہ بیٹھ کے نکل لینا۔ یہ چلے گئے۔  مدینہ سے مکہ کی طرف جاتے ہوئے دوسواریاں تھیں۔ ایک اونٹ پر ابوجہل اور اس کا ساتھی  سوار تھا اور عیاش رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔  جب  یہ لوگ مکہ کے قریب پہنچے تو انہوں نے  کہا کہ  ہماری سواری  تمہاری سواری کے مقابلے میں کمزور ہے لہٰذا  ایسا کرو  کہ ہم میں سے ایک کو اپنے پیچھے بیٹھا لو،  یوں بھی اتنی دوری تک ایک اونٹ پر ہم  دو بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ اکیلے بیٹھے ہوئے ہو۔  عیاش رضی اللہ عنہ  نے کہا کوئی بات نہیں ، آؤ  بیٹھ جاؤ،  ہمدردی کرتے ہوئے ایک کو  اپنے پیچھے بیٹھا لیا۔  اس کے بعد کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ   اس شخص نے ان کو اپنی باتوں میں الجھا کر  ان کو پیچھے سے کمر سے پکڑ کر مضبوطی کے ساتھ جکڑلیا ، دوسرا شخص بھی اپنے اونٹ سے اتر کر آگیا اور اس نے ہتھیار چھین لئے اور دونوں نے مل کر  ان کو اونٹ کی پیٹھ پر ہی رسیوں سے باندھ دیا۔  پھر یہ لوگ مکہ میں یہ اعلان کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ لوگو!  اپنے بیوقوفوں کے ساتھ یہی سلوک کرو ۔ دیکھو اس بیوقوف کو ہم کیسے پکڑ کے لائے ہیں۔  وہ اپنی حماقت کی بنا پر اہل ایمان کو بیوقوف کہتے تھے جیسا کہ  اللہ سبحانہ  نے قران مجید  میں ذکر فرمایا ہے : ﵟوَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ ءَامِنُواْ كَمَآ ءَامَنَ ٱلنَّاسُ قَالُوٓاْ أَنُؤۡمِنُ كَمَآ ءَامَنَ ٱلسُّفَهَآءُۗ أَلَآ إِنَّهُمۡ هُمُ ٱلسُّفَهَآءُ وَلَٰكِن لَّا يَعۡلَمُونَﵞ [البقرة: 13]    (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (یعنی صحابہ) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں، خبردار ہوجاؤ! یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں )۔  جو ایمان لانے والے صحابہ کو بیوقوف سمجھتے تھے آج کوئی بھی ان کا چاہنے والا اور عزت سے نام لینے والا نہیں  ۔اسی دنیا میں ان کی بیوقوفی اور صحابہ کی عقلمندی ظاہر ہوچکی ہے۔  آخرت کا یقینی انعام تو الگ  ہے اور وہ بہت بڑا ہے۔   آج جب صحابہ  کا نام لیا جاتا ہے تو ساتھ میں رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے۔  جو ایمان لے آئے انھیں صحابی ہونے کا شرف ملا ، اس کے برخلاف جو ایمان نہیں لائے  ان بدبختوں کو ذلت ورسوائی نصیب ہوئی۔ آج جب  ابو جہل کا نام لیا جاتا ہے تواسے  فرعون امت کہا جاتا ہے، اس پر لعنت کی جاتی ہے،  اس کو بدبخت کہا جاتا ہے،  کبھی اس کا ذکر خیر نہیں ہوتا۔ بہرحال کہنے کا مقصود یہ ہے کہ دنیا  کی بھلائی بھی اسلام کے ساتھ ہے اور آخرت کی بھلائی بھی اسلام  ہی کے ساتھ ہے۔

جو صحابہ کرام مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جا رہے تھے کوئی آسانی سے نہیں جا رہے تھے،  بڑی قربانی دی انہوں نے ، اپنے گھر بار کو چھوڑا،  اپنے وطن کو چھوڑا ، اپنے خویش و اقارب کو چھوڑا،  اپنے مال و دولت کو چھوڑا،  اپنی محبتوں کو چھوڑا ، سب کچھ چھوڑ کر کے صرف اپنا دین اور ایمان بچانے کے لیے  مدینہ چلے گئے ۔

میرے بھائیو ! یہ واقعات  صرف ہمارے پڑھ  لینے کے لیے نہیں ہیں  کہ ہم صحابہ کی تعریف کریں ، واہ واہ کریں ،  اور کہیں کہ واقعہ ہم کو بہت اچھا لگا۔ یقیناً  صحابہ کی تعریف بھی ضرور ہونی چاہیے  لیکن ہمیں یہ واقعات اس جذبے کے ساتھ بھی پڑھنا  چاہیے کہ ہم  بھی اسی ایمان اور اسلام کے ماننے والے ہیں جو صحابہ کا تھا   اور ہماری بھی اسی طرح کی ذمہ داریاں ہیں کہ اگر ہمیں اپنے  اسلام کی حفاظت کے لیے اور اپنے ایمان  کی بقا کے لیے  اپنا گھربار،  اپنا وطن اور اپنے خویش و اقارب کو چھوڑنا پڑے اور  اپنے مال و دولت کو قربان کرنا پڑے تو ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔  ایمان بچانا ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔  باقی تمام چیزوں کی حیثیت ایمان سے کم تر ہے ۔ کوئی چیز ایمان کی برابری نہیں کر سکتی۔

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں آتے  اور  مدینہ جانے کی اور ہجرت کرنے کی اجازت  طلب کرتے  مگر  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہیں دیتے تھے۔ اکثر لوگ مدینہ ہجرت کر گئے ، مکہ میں صرف چند مظلوم مسلمان بچے یا پھر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے کی بنا پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  اور علی رضی اللہ عنہ اور چند مسلمان باقی رہے۔  مکہ والوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک طرف سے  سارے مسلمان مدینہ ہجرت کرتے چلے جا رہے ہیں تو انھیں اپنی تجارت سے متعلق ایک اندیشہ ستانے لگا۔ مدینہ ان کی تجارت کے راستے میں پڑتا  تھا۔  مکہ کے لوگ  ملک شام کو تجارت کرنے جاتے تھے ۔  مکہ اور شام کے درمیان راستے  میں مدینہ بہت اہم سیاسی حیثیت رکھتا تھا اور طاقتور ہونے کی صورت میں ان کی تجارت کو روک سکتا تھا ۔  مکہ والوں کو  اپنی معیشت  پر خطرہ منڈلانے لگا ۔ وہ سوچنے لگے کہ ہماری اقتصاد کا کیا ہوگا؟  ہماری تجارت کا کیا ہوگا؟  اگر یہ وہاں طاقتور ہوگئے تو پھر  ہمیں آسانی سے رہنے نہیں دیں گے۔ ابھی  مکہ والے  ستا رہے تھے، ایمان والے  تو پرامن لوگ تھے۔  مکہ والے خود   ستا بھی رہے تھے اور مستقبل سے متعلق بلاوجہ کی بدگمانی بھی اپنے دلوں میں پالے ہوئے تھے۔  بہرحال انہوں نے کہا کہ ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اس پوری تحریک کے قائد  ،  اس پورے انقلاب  کے محرک اور  اس ساری  تبدیلی کا باعث ہیں،  کیوں نہ انہی کے بارے میں کوئی فیصلہ کن معاملہ اختیار کر لیا جائے؟  چنانچہ سب لوگ  مکہ کی پارلیمنٹ  دار الندوہ نامی مشورہ گاہ میں اکٹھا ہوئےاور مشورہ کیا۔  کسی نے کہا کہ آپ کو  باندھ کر  ایک کمرے میں بند کر دیا جائے یہاں تک کہ اپنی موت آپ مر جائیں۔  اس مجلس میں بدبخت ابلیس بھی آیا  ہواتھا۔  ابلیس ایک نجدی شیخ کی صورت میں آیا تھا۔ اس نے اس رائے کو ناپسند کیا اور کہا کہ اس کے علاوہ کچھ اور سوچو۔ بہت سارے لوگ اس واقعے کو سنا کر تمام نجدیوں کا  مذاق اڑاتے  اور ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ نجدیوں کے لئے قابل تعریف بات ہے نہ کہ قابل مذمت۔  نجدی  اسلام سے قبل بھی معزز تھے اور اسلام کے بعد آج بھی معزز ہیں الحمدللہ ، غور کیجئے کیا شیطان جب فریب دینے کے لئے کوئی صورت اختیار کرے گا  تو وہ صورت کسی ذلیل، بدبخت یا برے کی ہوگی یا کسی معزز ومکرم اور نیک بخت کی ہوگی؟ یقیناً کسی نیک اور معزز کی صورت ہوگی  تاکہ اس کی بات تسلیم کی  جائے  اور اس پر اعتماد کیا جائے۔ کوئی آدمی جب کسی کو  دھوکا دینا یا لوٹنا چاہتا ہے تو  وہ بری شکل میں آکے دھوکا دیتا اور  لوٹتا ہے  یا اچھی ، نیک اور معزز شکل میں آتا ہے؟ اسی طرح  شیطان بھی معزز لوگوں کی شکل میں آیا تھا۔ عقل اور دانش رکھنے والوں کی شکل میں آیا تھا ، معزز و مکرم نجدیوں کی شکل میں آیا تھا ۔  اسے نجدیوں کی شکل میں آنے کی وجہ سے عزت ملی اور احترام کے ساتھ مشورہ گاہ میں جگہ دی گئی۔  حالانکہ  حقیقت میں وہ شیطان تھا ، نہ معزز تھا نہ مکرم،    نہ ہی نجدی تھا اور نہ ہی  نجدی ہونے کے لائق  تھا۔  جھوٹے طور پہ نجدی بنا ہوا تھا۔

بہرحال محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کو قید کرنے کی رائے پر شیطان نے کہا کہ یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ کیا  تم دیکھتے نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں کیسی مٹھاس ہے اور آپ کے چاہنے والے آپ سے کتنی محبت رکھتے ہیں ، اگر آپ کہیں باندھ کے انہیں بند کر دیں گے تو زیادہ دن بند نہیں  رکھ سکتے، ان کے ماننے والے  انہیں چھڑا لے جائیں گے، اس لیے کوئی اور چیز سوچو۔  بہرحال بہت ساری باتیں آئیں سب سے آخر میں ابو جہل نے کہا کہ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ہر قبیلے سے ایک مضبوط اور کڑیل نوجوان کو اختیار کیا جائے اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دے دی جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے سامنے سب لوگ کھڑے رہیں جب آپ گھر سے نکلیں تو اکٹھا آپ پر حملہ کر دیں جیسے کہ کسی ایک نے حملہ کیا ہے اور اس کے بعد آپ کے خاندان بنو ہاشم کے لوگ قتل کا بدلہ قتل کی صورت میں نہیں مانگ سکتے مجبوراً انھیں دیت پہ راضی ہونا پڑے گا اور ہم دیت دے دیں گے۔  یہ رائے سن کر  شیطان نے بڑی واہ واہ کی۔  شیطان نے کہا کہ یہ ہے  عقل کی بات  اور یہ ہے کمال کی بات ،  اس پر عمل ہونا چاہیے۔ چنانچہ اسی پر  سب متفق ہوگئے اور اسی پر مجلس ختم ہوگئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلاۃ عشاء پڑھنے کے بعد آرام فرماتے تھے،  سو جایا کرتے تھے۔  اس کے بعد  جب رات  کا دو تہائی حصہ گزر جاتا  تو مسجد حرام میں تشریف لاتے  اور وہاں  تہجد  کی صلاۃ ادا  کیا کرتے  تھے اور قران پاک کی بلند آواز سے تلاوت  فرمایا کرتے تھے  تاکہ اگر کوئی  سنے تو اس کے دل میں  اسلام گھرکر جائے۔   مکہ والوں  نے پلان بنایا کہ آج کی رات جب آپ اپنے گھر سے تہجد کے لیے نکلیں  تو اسی وقت سارے لوگ  اپنی اپنی تلوار سے آپ پر حملہ کردیں  اور آپ کو جان سے ختم کر دیں۔  وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حفاظت میں ہیں،  اللہ کی پناہ میں ہیں،  اللہ سب سے بڑا ہے،  سب سے زیادہ علم والا ہے، سب سے زیادہ قدرت والا ہے ،جس کو اللہ رکھے اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا ، ایک طرف یہ اپنی پلاننگ کر رہے تھے اور دوسری طرف  اللہ تبارک و تعالی اپنی تدبیر کر رہا تھا ۔ چنانچہ قران پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے اس کا ذکر فرمایا ہے: ﵟوَإِذۡ يَمۡكُرُ بِكَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثۡبِتُوكَ أَوۡ يَقۡتُلُوكَ أَوۡ يُخۡرِجُوكَۚ وَيَمۡكُرُونَ وَيَمۡكُرُ ٱللَّهُۖ وَٱللَّهُ خَيۡرُ ٱلۡمَٰكِرِينَﵞ [الأنفال: 30]   یاد کیجیے اس وقت کو ،جب کافر آپ کے بارے میں چال چل رہے تھے،  وہ سوچ رہے تھے کہ آپ کو باندھ دیا جائے ،یا آپ کو نکال دیا جائے، یا آپ کو قتل کر دیا جائے۔  وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تبارک و تعالی تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر تدبیر والا ہے۔  

چنانچہ اللہ کی تدبیر غالب آگئی،  اللہ تعالی نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آج کی رات آپ مکہ میں نہیں رہیں گے ۔ مکہ چھوڑ  کرہجرت کر جائیے اور مدینہ چلے جائیے ۔  چنانچہ  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے قریبی ساتھی، سب سے فدا کار و جاں نثار ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا اور ہجرت  کی پوری منصوبہ بندی کی۔  آپ کی عادت مبارکہ میں سے یہ بھی تھا کہ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر روزانہ جایا کرتے تھے ، کبھی صبح میں  اور کبھی شام میں جایا کرتے تھے۔  اس دن  ٹھیک دوپہر کے وقت جب کہ لوگ عرب میں اس کی سخت گرمی اور سخت دھوپ سے بچنے کے لیے آرام کررہے ہوتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرے پر  نقاب لپیٹ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔  چونکہ    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے اس لئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ  ضرور کوئی نہ کوئی خاص بات ہے جس کے سبب  آپ کی تشریف آوری ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا:   آپ کے پاس اگر  کوئی ہے تو اس کو نکال دو۔  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :  اللہ کے نبی !یہ میری دونوں بیٹیاں ہیں،  آپ کے گھر والے ہیں۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت عطا فرمادی ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :یا رسول اللہ ! اپنی صحبت اور ہم نشینی کا شرف عطا کیا جائے۔  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :ہاں۔  آپ ہمارے ساتھ  ہجرت کریں گے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مارے خوشی کے رو پڑے۔  کہتی ہیں کہ میں نے غم کے مارے تو روتے ہوئے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا لیکن خوشی کے مارے روتے ہوئے پہلی بار دیکھا۔  یہ یقیناً بہت بڑا شرف تھا جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کو حاصل ہوا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبے سے ناواقف بعض نادان ان کے بارے میں اپنی گندی زبانوں سے بری  باتیں کہتے ہیں۔  آپ غور کریں  کہ ہجرت کا یہ نازک ترین مرحلہ  جس میں قدم قدم پہ خطرات تھے ، سفر کا ساتھی اختیار کرنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔  14 دن کا سفر مکہ سے مدینہ کا، لگ بھگ چار سے پانچ سو   کیلومیٹر کی مسافت۔  ذرا غور کیجئے : جب آپ اپنے تھوڑی سی دوری کے سفر  کے لیے کوئی ساتھی تلاش  کرنا چاہتے ہیں تو کس  طرح کے ساتھی کو ڈھونڈتے ہیں۔  کیا آپ کسی  برے ، بدعہد ، گندے ، بدمعاش اور شریر آدمی کو  سفر کا ساتھی بناتے ہیں یا  کوئی ایسا شخص تلاش کرتے ہیں جو آپ کا خیر خواہ ہو، آپ کا ہمدرد ہو، آپ سے محبت رکھنے والا ہو،  آپ پہ جان چھڑکنے والا ہو، آپ کا چاہنے والا ہو۔  بہرکیف  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر ہجرت میں جس کو ساتھی بنایا وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔  جو لوگ ابوبکر صدیق  کے بارے میں بدزبانی کرتے   ہیں وہ درحقیقت  کفار  مکہ سے بھی گئے گزرے ہیں۔  مکہ کے کافر بھی جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ  عنہ ہیں۔ چنانچہ  آپ دیکھیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر گئے تو کفار مکہ آپ کو تلاش کرتے ہوئے ابوبکر صدیق کے گھر آئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم غائب ہیں تو سب سے پہلے صدیق کے گھر تلاش کرو کیونکہ وہیں ہوں گے،  اوراگر وہاں نہیں ہوں گے تو ابوبکر بھی نہیں ملیں گے کیونکہ دونوں ایک ساتھ رہنے والے ہیں۔  ایسے ساتھی ہیں جن کو اللہ نے ساتھی کہا :  ﵟإِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ ٱللَّهُ إِذۡ أَخۡرَجَهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ ٱثۡنَيۡنِ إِذۡ هُمَا فِي ٱلۡغَارِ إِذۡ يَقُولُ لِصَٰحِبِهِۦ لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ ﵞ [التوبة: 40]  اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے حکمت والاہے ۔

کلام الٰہی میں رب کا ارشاد دیکھئے : جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے،  اپنے صاحب سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔  تو ہجرت میں ساتھ ہونے کو  اللہ تعالی نے قرآن پاک میں درج کر دیا جس کی قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی۔  بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہجرت کے لیے  ایک ساتھ نکلے۔

 ایک بات اور غور کرنے کی ہے کہ  اللہ تبارک و تعالی اگر چاہتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو  اسرا اور معراج کی طرح براق پہ بیٹھا کر کے شہرمدینہ تک پہنچادیتا لیکن اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا ۔ اس واقعہ میں امت کے لئے یہ  تعلیم ہے  کہ ہم اپنے دین کے لیے اللہ  کی دی ہوئی  عقل اور سوج بوجھ  اور اللہ کی عطا کی ہوئی قوت و طاقت کا  پورا استعمال کریں۔ اپنی بہتری کے لیے ، اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لیے،  جب کوئی ایسا معاملہ آجائے گا جو ہماری قوت وطاقت سے ماورا ہوگا تو وہاں اللہ کی مدد آئے گی۔ جب ہم اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق اپنی پوری طاقت لگا دیں گے تو وہاں اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔  چنانچہ دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟ مدینہ تک کا راستہ بتانے کے لیے ایک غیر مسلم جس کا نام عبداللہ تھا اس کو اجرت پہ رکھا کہ تم سواریاں اپنے پاس رکھو، تین دن کے بعد فلاں غار پہ آجانا اور وہاں سے مدینہ کے لیے نکلیں گے،  مکہ کی خبروں کو معلوم کرنے کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ کو تیار کیا گیا کہ وہ بڑے سمجھدار تھے، بڑے ذہین  اور  ہوشیار تھے ،   ان کو تیار کیا گیا کہ آپ دن بھر مکہ میں رہیں اور رات کا اندھیرا چھاجانے کے بعد  غار میں آکر ساری خبریں بتا کر  پھر صبح ہونے سے پہلے اندھیرے منہ واپس چلے جائیں۔  مکہ والوں کو ایسا لگے کہ آپ مکہ ہی تھے۔ اس طرح پوری خبروں کی اطلاع ہو جایاکرے گی۔  تیسری چیز کھانے پینے کا یہ انتظام کیا گیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام عامر بن فہیرہ اپنی بکریاں چراتے ہوئے آئے گا اور وہ بکریوں کا دودھ پلا کے جائے گا اور اس کے بعد وہاں سے گزرتے ہوئے   ابوبکر کے بیٹے عبداللہ کی آمد ورفت کےقدموں کے نشانات بھی مٹاتا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ  بکریوں کے چلنے کی وجہ  سے قدموں کے نشانات  مٹ جائیں گے۔  اسی طرح سارے انتظامات کر لیے گئے۔  مکہ والے جانتے تھے کہ مسلمان مدینہ  کی جانب ہجرت کر رہے ہیں تو سب سے پہلے مدینہ کے راستے پر تلاش کریں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  مدینہ کے راستے  کے برعکس  یمن کا راستہ اختیار کیا ۔ مدینہ مکہ سے شمال کی جانب ہے اور یمن جنوب کی طرف ہے۔ بالکل الٹا ۔  ثور کی  وہ  پہاڑی جس میں غار  تھا  جس میں آپ نے پناہ لی تھی ، وہ یمن کی طرف جنوب کی طرف تھا ،وہاں جا کے آپ نے اس غار میں تین دن تک پناہ لی۔  

تین دن تک پناہ لینے کا پروگرام اس لئے بنایا گیا کیونکہ پہلے دن تو جوش وجذبہ بہت ہوتا ہے لیکن دوسرے دن تھوڑا ٹھنڈا ہو جاتا ہے، تیسرے دن زیادہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے، اور چوتھے دن لوگ بھول جاتے ہیں، یہ انسانی طبیعت ہے، اسی لیے بہت سارے دین کے معاملات میں آپ دیکھیں کہ تین دن اجازت دی گئی ،گھر میں میت ہو کتنے دن سوگ منانے کی اجازت ہے؟ تین دن ، البتہ بیوی ہو تو چار مہینے 10 دن ۔ باقی لوگوں کو تین دن سے زیادہ  سوگ منانے کی اجازت نہیں۔ تین دن کے بعد بھول جاؤ۔  دو مسلمان میں لڑائی ہو جائے کتنے دن بات بند رکھنے کی اجازت ہے؟ تین دن۔ تین دن کے بعد بھول جاؤ ۔ کہنا یہ ہے کہ  انسانی طبیعت تین دن کے بعد ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور پرانی چیزوں کو بھول جاتی ہے ۔

منصوبہ کے مطابق مکہ کے مختلف قبائل کے نوجوانوں نے  رات میں ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر چاروں طرف سے  گھیرلیا۔  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آج کی رات آپ کے بستر پر لیٹ جائیں۔ صبح اٹھ  کر کفار کی امانتیں  ان کو واپس کر دیں  اور اس کے بعد آپ بھی ہجرت کرکے مدینہ آجائیں۔  علی رضی اللہ عنہ بے خوف و خطر لیٹ گئے۔ اللہ کے نبی نے کہا  کہ صبح امانتیں واپس کرنا ہے  پھرمدینہ جا کے آپ سے ملنا ہے،  اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو   کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔  اللہ کے نبی نے فرمایا ہے تو برحق ہے۔  چنانچہ علی رضی اللہ عنہ  آپ کی سبز چادر اوڑھ کے آپ کے  بستر پر لیٹ گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات  کی تاریکی میں  سب کے سروں پہ  غبار ڈالتے ہوئے نکل گئے۔  اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اس کو بیان کیا ہے :  ﵟوَجَعَلۡنَا مِنۢ بَيۡنِ أَيۡدِيهِمۡ سَدّٗا وَمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدّٗا فَأَغۡشَيۡنَٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُونَﵞ [يس: 9]   اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اورایک آڑ ان کے پیچھے کردی، جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا سو وه نہیں دیکھ سکتے۔

اللہ کے نبی چلے گئے ۔  بدبخت شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں کھڑے کافر نوجوانوں سے  کہا: اب کیا انتظار کر رہے ہو،  محمد تو چلے گئے اور ذرا اپنے سروں کو دیکھو، تمہارے سروں  پہ مٹی بھی ڈال کے گئے ہیں۔  واقعی ان کے سر پر غبار تھا لیکن انھوں نے  دروازے کی شگاف سے جھانک کر دیکھا تو نظر آیا کہ آپ  تو اپنے بستر پہ لیٹے ہیں ، اس لئے مطمئن ہوکر پھر انتظار کرنے لگے۔    جب صبح ہوئی تو اس بستر سے  علی رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے ۔ یہ دیکھ کر انھیں بڑا غصہ آیا لیکن اب کیا کرسکتے تھے۔  علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،  محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اس بستر پہ سوتے تھے وہ کہاں گئے؟  علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :  مجھے کیا معلوم؟ مجھے کچھ معلوم نہیں۔  آپ نے مجھے  یہاں لیٹنے کے لیے کہا تھا ،میں لیٹ گیا ۔

اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بعض بدبخت  ذاکر یہ کہتے ہیں  کہ   اللہ تعالی نے اپنے نبی سے یہ حکم اس لئے دلوایا تھا کیونکہ علی کبھی سوتے نہیں تھے۔  اللہ تعالی چاہتا تھا کہ علی بھی سوئیں خواہ ایک رات ہی سہی  تاکہ علی اور اللہ میں فرق ہو جائے۔  نعوذ باللہ ۔  کتنا بڑا جھوٹ ہے ۔

آئیے ایک صحیح حدیث دیکھتے ہیں جو بخاری ومسلم کے ساتھ  ساتھ حدیث کی متعدد کتابوں میں مروی ہے:   عن عَلِيّ بْن أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ أَلَا تُصَلِّيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا. ( أخرجه أحمد (900)، والبخاري (1127)، ومسلم (1768)، والنسائي (1313)

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاحبزادی  فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:’’تم دونوں (تہجد) کی صلاۃ  کیوں نہیں پڑھتے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: ’’انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔‘‘

یہ ایک حدیث ہے اور اس طرح کی متعدد احادیث ہیں ۔ ابو تراب والی حدیث تو بہت مشہور ہے۔  بہرحال بتلانا مقصود یہ ہے کہ جاہل ذاکرین کیسی کیسی لغو اور بے جا باتیں بیان کرتے ہیں۔   والعیاذ باللہ

آئیے دوبارہ واقعہ ہجرت کی طرف چلتے ہیں۔

جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق علی رضی اللہ عنہ  سے کوئی خبر نہ مل سکی تو انھیں پکڑ کر اپنے ساتھ  لے گئے، تھوڑی دیر قید  رکھا،  پریشان کیا لیکن اس کے بعد چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے۔  ان کے گھر  کادروازہ کھٹکھٹایا۔  اسماء رضی اللہ عنہ باہر آئیں۔  عائشہ رضی اللہ عنہا چھوٹی تھیں،  اسماء رضی اللہ عنہ ان سے بڑی تھیں۔  پوچھا کہ تمہارے باپ کہاں ہیں؟  کہا : مجھے معلوم نہیں ۔  بدبخت ابو جہل نے اتنے زور سے طماچہ مارا کہ کان کی بالی  ٹوٹ کے گر گئی۔ اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ سخت چوٹ برداشت کی لیکن انھیں کچھ نہیں بتایا  اور اللہ کے لیے صبر کیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ نہ صرف وہ اکیلے بلکہ ان کے پورا گھرانا، ان کی بیٹیاں، ان کے بیٹے اور  ان کے غلام سب کے سب اسلام کی خدمت کے لیے لگے ہوئے ہیں۔  

بہرحال اسماء رضی اللہ عنہا نے کہاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کہاں گئے ہیں  مجھے کچھ نہیں معلوم ۔  اس کے بعد کفار مکہ  مایوس ہو کر یہاں سے لوٹ  گئے۔

  پھر مکہ والوں نے اعلان کیا کہ جو کوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ پکڑ کے لائے گا اس کو سو( 100 ) اونٹنیاں انعام دی جائیں گی۔ اونٹنی کی قیمت اونٹ سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اونٹنی بچے اور دودھ دیتی ہے نیز افزائش نسل کا وسیلہ ہوتی ہے۔   اونٹ عربوں کی سب سے بڑی دولت تھی۔  اس وقت 100 اونٹ کا انعام  بہت بڑا انعام تھا۔  لوگوں نے پتھر اکھیڑ ڈالے کہ کہیں زمین میں چھپے ہوں  تو وہاں سے نکال لیا جائے ۔ لوگ تلاش کے لئے چاروں طرف بکھر گئے ۔ تلاش کرتے کرتے اس جگہ بھی پہنچ گئے جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار ثور میں پناہ لے رکھی تھی۔   وہ اس قدر قریب تھے کہ غار کے اندر ان کی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے۔  آپ نے کہا کہ  اگر کوئی شخص جھک کے دیکھے گا تو ہم نظر آجائیں گے۔  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن تھے۔  اللہ  کی حفاظت کے وعدے پہ مطمئن تھے۔  ظاہر بات ہے آپ کے پاس جو تھا باقی لوگوں کو آپ کے بتانے ہی سے وہ پہنچا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خصوصیت حاصل تھی وہ کسی اور کو حاصل نہیں تھی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو خوف تھا وہ اپنی ذات پر نہیں تھا ،اگر اپنی ذات پہ خوف ہوتا تو گھر سے ہی نہیں نکلتے۔  انہیں جو کچھ خوف تھا  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا کہ اگر آپ کو کچھ نقصان پہنچا تو پوری امت کا نقصان ہے۔ قیامت تک اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ آپ آخری نبی ہیں۔ آپ کے ذریعے سے یہ دین امت تک پہنچنے والا ہے۔ اس لیے آپ کی حفاظت ضروری ہے۔  چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! اگر کوئی جھک کے دیکھے گا تو ہمیں دیکھ لے گا، اس وقت  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوبکر ! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے ! ہم دونوں اکیلے اکیلے نہیں ہیں، ہمارے ساتھ  اللہ ہے۔  اللہ تعالی نے اپنے نبی کی بات  قرآن پاک میں ذکر  فرمائی ہے :  ﵟلَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ ﵞ [التوبة: 40]  غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔  پوری آیت اس طرح ہے :  ﵟإِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ ٱللَّهُ إِذۡ أَخۡرَجَهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ ٱثۡنَيۡنِ إِذۡ هُمَا فِي ٱلۡغَارِ إِذۡ يَقُولُ لِصَٰحِبِهِۦ لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُۥ عَلَيۡهِ وَأَيَّدَهُۥ بِجُنُودٖ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلسُّفۡلَىٰۗ وَكَلِمَةُ ٱللَّهِ هِيَ ٱلۡعُلۡيَاۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌﵞ [التوبة: 40] اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے ، جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے حکمت والاہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ میرے ساتھ ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام نے  اپنی قوم سے کہا تھا۔  موسی علیہ السلام جب اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کے نکلے اور پیچھے فرعون کا لشکر آیا تو موسی علیہ السلام کی قوم نے  کہا:  اب تو ہم مارے گئے ، موسی کیا ہوگا؟ تو موسی علیہ السلام نے کہا:  ہرگز نہیں ،ایسا نہیں ہو سکتا،  میرے ساتھ میرا رب ہے، مجھے راستہ دکھائے گا۔  اس موقع پر موسی علیہ السلام نے صرف اکیلے اپنے آپ کو کہا کہ میرارب میرے ساتھ ہے ، اس لیے کہ وہ بدبخت قوم اس لائق نہیں تھی کہ اللہ کی معیت انہیں حاصل ہوتی ، انہوں نے اپنے عمل سے ایسا  ثابت نہیں کیا،  جب لڑنا ہوا تو کہا: جاؤ موسی تم لڑو اور تمہارا رب لڑے ،ہم نہیں جائیں گے۔  لیکن امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معاملہ نہیں ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پورے گھرانے کو اللہ کے نبی اور اللہ کے دین کی خدمت  کے لیے لگا دیا ۔  اللہ تعالی نے  اپنی معیت  میں،  اپنے ساتھ ہونے میں ابوبکر  صدیق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  شریک کیا ۔  یعنی اللہ سبحانہ  نبی کے بھی ساتھ  ہے اور ابوبکر کے بھی ساتھ ہے۔  اگر صرف قران کی آیت ہوتی تو  شایدکوئی کہہ دیتا کہ کبھی کبھی ہمارے ساتھ احترام کے لیے بھی بولا جاتا ہے اسی لیے حدیث میں اس کی وضاحت آگئی کہ اللہ تبارک و تعالی تین کا تیسرا ہے تاکہ یہ پتہ چلے کہ اللہ سبحانہ  دونوں کے ساتھ ہے۔   صحیح بخاری  (4663) اور صحیح مسلم (2381)کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا   ’’ان دو کے متعلق  آپ کا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالٰی ہو۔‘‘

یہاں یہ مسئلہ بھی  اختصار کے ساتھ جانتے چلیں کہ اللہ تبارک و تعالی ہر ایک کے ساتھ اس کے حساب سے  ہوتاہے۔  اللہ تبارک و تعالی کی ذات بابرکات عرش کے اوپر ہے۔  ساتوں آسمانوں کے اوپرہے ۔  اللہ ہر جگہ موجود نہیں ہے جیسا کہ راہ راست سے منحرف لوگ کہا کرتے ہیں۔  اللہ سبحانہ اپنے خاص بندوں کے ساتھ خصوصی طور پر ہوتا ہےاور  ہر ایک کے ساتھ نگرانی کے طور پر ہوتا ہے۔

  بہرحال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔  اس کے بعد  اللہ تعالی نے سکون نازل کیا اور اللہ  سبحانہ نے ایسے لشکروں سے مدد فرمائی جن  کو کسی نے نہیں دیکھا ۔  یہ لشکر کون سے ہیں؟ یہ  فرشتوں کے لشکرہیں۔   اس کے بعد  یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آئے ہوئے لوگ وہیں سے الٹے پاؤں لوٹ گئے۔

 پھر کیا ہوا؟ تین دن بیتا۔ عبداللہ بن اریقط سواریاں لے کے آیا اور اس کے بعد وہاں سے آگے  کے لئے نکل پڑے۔   اگرچہ تلاش ٹھنڈی پڑ چکی تھی لیکن ظاہر بات ہے انعام کا اعلان ابھی تک تھا۔ سراقہ بن مالک اپنی قوم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آ کے کہتا ہے کہ میں نے ساحل کے راستے پر کچھ سائے دیکھے ہیں جن کے بارے میں میرا اندازہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ہو سکتے ہیں۔   انعام کی لالچ تھی اور در اصل  اللہ نے ان کے لیے ایک بڑا خیر مقدر کر رکھا تھا جو ان کے حصے میں آنے والا تھا،  اس لیے انہوں نے بتانے والے سے کہا: تم بلاوجہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں  کے بارے میں سوچ رہے ہو، وہ دوسرے لوگ ہیں جو میرے ہی سامنے گئے ہیں۔  مقصد یہ تھا کہ کوئی اور نہ چلا جائے،  میں جاؤں اور  میں  ہی پورا انعام پاؤں، بھٹکانا اور گمراہ کرنا مقصد تھا۔

اس کے بعد  اپنی لونڈی سے کہا کہ تم میرا نیزہ ، میرا تیر اور میری سواری لے کر ٹیلے کے پیچھے کی جانب سے آؤ اور خود چپکے    چپکے   ٹیلے  کے  پیچھے گئے، جھک کے چلے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے۔  اور تیزی سے اپنا گھوڑا ساحل کی جانب دوڑایا   تاکہ جلد ہی مطلوب افراد کو پکڑ لیں اور قیمتی انعام حاصل کرلیں۔  

سفر ہجرت کی راہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کیفیت یہ تھی کہ کبھی جناب محمد رسول اللہ کے آگے چلتے تھے ،کبھی  پیچھے ، کبھی دائیں ، کبھی بائیں ۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکر کیا بات ہے؟ کبھی آگے چلتے ہو، کبھی پیچھے ، کبھی دائیں ،کبھی بائیں ؟  آخر بات کیا ہے؟ صدیق نے جواب  دیا:  اللہ کے نبی !  جب سوچتا ہوں کہ کہیں پیچھے سے  کوئی تعاقب نہ کر رہا ہو تو  آپ کی حفاظت کے لئے پیچھے چلا جاتا ہوں۔ تاکہ اگر  کچھ تکلیف ہو تو مجھے ہو  آپ کو نہ ہو۔  جب سوچتا ہوں کوئی گھات لگا کے پہلے سے نہ بیٹھا ہو تو آگے چلا جاتا ہوں کہ اگر تکلیف ہو تو مجھے ہو آپ کو نہ ہو۔  اور انہی مقاصد سے میں دائیں بائیں بھی چلا جاتا ہوں ۔ کیا محبت تھی میرے بھائیو!!  کس قدر جاں نثاری اور فداکاری  کا جذبہ تھا !  یہی وجہ ہے کہ  اللہ تعالی نے  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑا درجہ  اور مقام ابوبکر صدیق کا رکھا ہے۔  

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں جو عقیدہ اور عمل دونوں امتحان میں پہلے نمبر پر کامیاب ہوکر سرخرو ہوئے۔  اللہ سبحانہ کی سنت ہے کہ وہ اہل ایمان کا امتحان لیتا ہے۔ اور ایک بار نہیں ، بار بار امتحان لیتا ہے۔  پوری زندگی ہی امتحان ہے۔  جب اسراء اور معراج کا واقعہ ہوا تو اللہ تعالی نے اہل ایمان کے غیبی عقیدے کی پختگی کا امتحان لیا ۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی چند گھڑیوں میں بیت المقدس اور ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی  اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دنیا کے سامنےبیان کیا، جو کمزور ایمان والے تھے  ان کے ایمان ڈگمگا گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا ابوجہل پہنچا اور اس نے کہا: ابوبکر سنا نہیں کہ آپ کے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کیا دعوی کررہےہیں؟ وہ کہہ رہے ہیں  کہ  رات کی چند گھڑیوں میں وہ بیت المقدس تک گئے ،جبکہ ہم سب کو وہاں جانے میں ایک مہینے لگ جاتے ہیں۔   ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:  اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے تو برحق ہے۔  خبر پہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ سند درست ہے ، حوالہ درست ہے، آپ کا قول ہونا متحقق ہے تو کافی ہے۔   محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث اور سنت آگئی تو پھر  مزیدبات کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔  یہ غیبی عقیدے پر ایمان کی پختگی کا امتحان تھا اور اس امتحان میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کامیاب ہو گئے۔   یہی وجہ ہے کہ  ہجرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ملنے کا شرف حاصل ہوا کیونکہ ان کا ایمان ایسا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں تو برحق، پتھر کی لکیر، اسے کوئی کاٹ نہیں سکتا۔

معراج کا واقعہ عقیدے کا امتحان تھا، پھر عمل کا امتحان ہوا۔  ہجرت عمل کا امتحان تھا کہ  اپنا وطن ، اپنے خویش و اقارب ، اپنا خاندان ،  اپنی زمین وجائیداد، مال ودولت  اور اپنا گھربار سب کچھ اللہ کی خاطر چھوڑدو۔  یہ امتحان تھا۔  جو اس میں کامیاب ہو گئے وہ  بڑی کامیابی سے سرفراز  ہو گئے۔  اسی لیے اللہ تعالی نے جب درجات لوگوں کے متعین کیے ہیں تو سب سے پہلا درجہ مہاجرین کارکھا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﵟوَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ ﵞ [التوبة: 100] ایمان میں سبقت کرنے والے ،پہل کرنے والے  ،جنہوں نے ہجرت کی اور جنہوں نے ان کی مدد کی۔   مہاجرین پہلے ہیں کیونکہ ان کی قربانیاں زیادہ ہیں۔

 میرے بھائیو!  دین وایمان کے لیے ، اللہ کی پاکیزہ شریعت کے لیے جو جیسی قربانیاں دے گا اسی اعتبار سے اللہ تبارک و تعالی اس کا درجہ   بلند فرمائے گا۔

بہرحال ہم پھر ہجرت کے واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ سراقہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے  یہاں تک کہ آپ کی تلاوت کی آواز سنائی دینے لگی۔  اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اطمینان سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔  ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے  جب کہ  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار متوجہ ہوا کرتے تھے۔  کبھی دائیں، کبھی بائیں، کبھی آگے، کبھی پیچھے۔  وہ جھانکتے رہتے تھے،  دیکھتے رہتے تھے، چاروں طرف نظریں دوڑاتے رہتے تھے۔  سراقہ کہتے ہیں کہ جب میں قریب پہنچ گیا اور قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی آواز سننے لگا تو اچانک میرے گھوڑے کو ٹھوکر لگی اور گھوڑا گر گیا،  گھوڑا گر گیا تو میں نے کہا کہ لاؤ کیوں گھوڑے کو ٹھوکر لگی ہے میں تیر نکال کے دیکھ لوں کہ میں کچھ نقصان پہنچا پاؤں گا یا نہیں؟ کہتے ہیں  کہ وہی تیر نکلا جو مجھے ناگوار تھا، جو میں نہیں چاہتا تھا کہ نکلے،  تیر یہ نکلا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے ساتھیوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکوں گا۔ اس وقت  ایک اونٹ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے پیچھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  تھے۔ دوسرے اونٹ پر عبداللہ بن اریقط راستہ بتانے والا اور اس کے پیچھے عامر بن فہیرہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔  یہ چار لوگوں کا قافلہ تھا ۔ سراقہ کہتے ہیں کہ میں  مخالف تیر نکلنے کے باوجود انعام کی لالچ میں آگے بڑھتا رہا۔  انعام کی لالچ اس قدر طاقتور،پرکشش اور شدید تھی کہ میں نے تیروں کی نافرمانی کی اور   آگے چل پڑا ۔ پھر گھوڑا دوڑایا ،پھر گھوڑا ٹھوکر کھا کے گر گیا،  میں نے کہا چلو پھر ایک بار تیر نکال لیتے ہیں،  ہو سکتا ہے تیر میرے حق میں نکل جائے ،لیکن پھر وہی حالت، وہی نکلا جو ناپسند تھا۔  پھر میں نے تیروں کی نافرمانی کی اور پھر میں نے گھوڑا دوڑایا اور تیسری بار گھوڑا دھنس گیا ،  گھوڑے کے  آگے کا پیر زمین میں دھنس گیا۔  جب میں نے اس کو زور سے ڈانٹا اور مارا تو گھوڑے نے تیزی کے ساتھ اپنے قدموں کو  زمین سے نکالا  لیکن ساتھ ہی  ایک دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا جو  آسمان کی طرف  جا رہا تھا۔ میرے دل پر خوف طاری ہو گیا اور مجھے یقین ہوگیا  کہ میں ان کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ چنانچہ میں نے وہیں سے آواز لگائی۔  میں نے کہا کہ میں جان کی امان مانگتا ہوں، مجھے پروانہ امان لکھ دیا جائے۔  مجھے یقین ہے کہ آپ کا غلبہ ہو گا۔ جب آپ مکہ پہ غالب ہوں گے اس وقت کے لئے  مجھے امان کا پروانہ دے دیا جائے۔   اس کے بعد کہنے لگے کہ آگے فلاں جگہ پر میرے اونٹ چر رہے ہیں، وہاں میرا غلام ہے  اور میری بکریاں  بھی ہیں ، آپ جو چاہیں اس میں سے لے سکتے ہیں۔  میرے ساتھ جو تیر وغیرہ ہیں  ، آپ کی خدمت میں پیش ہیں قبول فرمائیں۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بھی لینے سے انکار کیا اور  فرمایا:  ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ اس موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیشین گوئی فرماتے ہوئے  کہا:  سراقہ  اس وقت کا عالم کیا ہوگا جب تمہارے ہاتھوں میں کسری کا کنگن ہوگا۔   سراقہ نے مال کی لالچ میں پیچھا کیا تھا ،   اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے  اسی کے مطابق خوشخبری بھی  سنائی۔

میرے بھائیو!  مظلومیت کی حالت میں، مجبوری کی حالت میں ،بے کسی کی حالت میں،  ستائے ہوئے اپنے وطن کو چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ کوئی مستقبل نہیں ہے، لیکن کہہ رہے ہیں کہ ایران فتح ہونے والا ہے۔ کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیونکہ  اللہ کی ذات پر یقین  ہے،   اللہ کے وعدوں پر یقین ہے،   اللہ کی مدد ونصرت پر یقین ہے۔  یہی  یقین اور توکل جب  کسی بندے میں آجاتا ہے تو بندہ کامیاب ہوجاتا ہے۔  اگر شک میں رہے، تردد میں رہے، تذبذب میں رہے تو ظاہر سی بات ہے کبھی  کامیاب نہیں ہو سکتا۔

  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کے لئے جو پیشین گوئی فرمائی تھی وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے عہد خلافت میں پوری ہوئی۔  جب ایران کو فتح کیا  گیا تو  فاروق اعظم نے کہا:  کہاں ہے بدو سراقہ؟ آئے اور یہ کنگن پہنے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ چنانچہ پیشن گوئی پوری ہوئی ۔  یاد رکھئے کہ  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے کے لیے جتنی پیشنگوئیاں فرمائی  ہیں سب کے سب پوری  ہو کے رہنے والی ہیں۔  جس طرح کسی انسان کو یہ  یقین ہوتاہے کہ پانی میں شکر ڈالنے سے پانی ضرور میٹھا ہو جائے گا اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ایک مسلمان کو  یہ یقین ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات بالکل برحق اور  ثابت ہے اور آپ کی ہر ایک پیشین گوئی یقینی طور پر پوری ہونے والی ہے۔

 سراقہ کی پیشکش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ جواب دیا کہ  ہمیں کوئی حاجت نہیں ہے۔  ہمیں کوئی چیز نہیں چاہیے البتہ ہماری بات کو راز میں رکھنا ۔ چنانچہ مکہ کی جانب واپس لوٹتے ہوئے  جب بھی کوئی  سراقہ سے ملتا تو سراقہ یہی کہتے :  اس سمت  جانے کی ضرورت نہیں، یہ راستہ میں پوری طرح  دیکھ کے آرہا ہوں، ادھر کی کھوج خبر لے چکا ہوں۔  چنانچہ اس طرف  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں جانے والے سارے لوگوں کو یہ لوٹاتے رہے۔  سوچنے کی بات ہے کہ وہی  شخص جو صبح میں چڑھا آ رہا تھا شام کو وہی محافظ وپاسبان بن گیا۔

میرے بھائیو! یہ اللہ کی طرف دعوت دینے کا نتیجہ ہے۔  جو لوگ آج  ہم پر ظلم  وزیادتی کررہے ہیں،  ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں،  ہمارے خلاف چالیں چل رہے ہیں،  اگر ہم اللہ کے دین کو مضبوطی کے ساتھ  خود بھی تھامیں اور ان کو بھی  اللہ کی طرف بلائیں تو ان شاء اللہ  ایک دن آئے گا کہ اللہ سبحانہ  انہی کو ہمارا پاسبان اور محافظ بنادےگا۔  لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پہلے دین کو مضبوطی سے پکڑیں اور پھر ان کو بھی اللہ کے دین کی طرف بلائیں۔

 میرے بھائیو! آئیے دوبارہ واقعہ ہجرت کی طرف چلتے ہیں۔

سفر ہجرت میں مدینہ کے راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک خیمہ کے پاس سے گزر ہوا۔  یہ ام معبد کا خیمہ تھا جو  بنو خزاعہ  کی ایک خاتون تھی۔   راستے میں راہ گیروں اور مسافروں کی  مہمان نوازی کرلیا کرتی تھی اور کچھ سامان وغیرہ بیچ بھی لیا کرتی تھی۔ جس وقت  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اس کے خیمے کے پاس پہنچے۔  اتفاق سے اس دن اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ کھانے کے لئے کچھ ہے ؟ دریافت کئے جانے پر اس نے بتایا کہ کچھ نہیں ہے۔ اس کے خیمے  کے ایک گوشے میں ایک بکری نظر آئی تو کہا گیا کہ  یہ بکری تو ہے نا،  ام معبد نے جواب دیا کہ یہ بکری  نہایت مریل اور کمزور ہے اسی لیے  باقی بکریوں  کے ساتھ چرنے  نہ جا سکی اور  پیچھے  رہ گئی ۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد سے اس بکری کو دھوہنے کی اجازت طلب کی۔  ام معبد نے کہا: میرے ماں باپ آپ پہ قربان! اگر آپ دودھ نکال سکیں تو ہمیں کیا اعتراض ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گھر کا سب سے بڑا برتن لیا  اور  اپنے ہاتھوں سے خود دودھ نکالنا شروع  کیا اور خود ہی مکمل بھی کیا۔  اور اس کے بعد  سب کو پلایا۔  سب سے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  خود پیا اور اس کے بعد دوبارہ  وہی برتن بھر کے دودھ نکال  کر کے وہاں  رکھ دیا کہ تم اور  تمہارے گھر والے پی لینا۔   پھر  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے  آگے نکل گئے۔   جب  ام معبد کا شوہر  گھر  آیا تو اس نے گھر میں دودھ  سےبھرا ہوا پیالہ دیکھ کر پوچھا کہ یہ دودھ  کہاں سے آیا؟  ظاہر ہے کہ یہ شوہر اور  گھر کے مالک  کا حق ہے کہ اپنے گھر میں کوئی  نئی چیز  دیکھے تو اس سے متعلق اپنی بیوی  یا  اپنے زیر کفالت افراد یا گھر میں رہنے والوں سے سوال کرے اور پوچھے۔   زکریا علیہ السلام کی کفالت اور پرورش میں مریم علیہا السلام  تھیں۔  زکریا علیہ السلام مریم علیہا السلام کے والد نہیں ہیں بلکہ  ان کی کفالت کر رہے تھے ،ان کی پرورش کر رہے تھے،  ان کے کمرے میں آیا جایا کرتے تھے۔ جب زکریا علیہ السلام نے ایک بار دیکھا کہ مریم علیہا السلام کے کمرے میں بے موسم کا   پھل رکھا ہوا ہے تو پوچھا کہ یہ پھل کہاں سے آیا؟   صاحب خانہ کاحق ہے کہ گھر کے اندر ہونے والے امور سے باخبر رہے۔ بہرحال ام معبد نے اپنے شوہر کو  بتایا کہ  ان اوصاف کا حامل ایک شخص آیا تھا۔   روشن چہرے والا تھا ، بات کرتا تو جدا  کیفیت ہوتی اور خاموش رہتا تو  ایک الگ  حسن تھا ۔ ام معبد نے اس مہمان کی  تعریفوں کے پل باندھ دیے۔  ام معبد نے جتنی باریکی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  شکل وصورت کا نقشہ کھینچا ہے تاریخ میں کسی اور نے ایسا نہیں کیا،  کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا  ایسا  رعب  و دبدبہ اور جاہ وجلال  تھا کہ کوئی بھی شخص آپ کے چہرے پر نگاہ جما کے دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔  وہ تو اجنبی  خاتون تھی،  آپ سے واقف ہی نہ تھی،  لیکن دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئی   اور پھر آپ کا کامل حلیہ بیان کیا۔  اللہ تعالی نے عربوں کو بیان کرنے کی بے پناہ صلاحیت  دی ہے،  چنانچہ اس عرب خاتون نے اپنی زبان وبیان کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مشاہدے کو پوری طرح  بیان کیا ۔  عام طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے  سیرت نگاروں نے  آپ کا حلیہ ام معبد کے بیان  ہی سے لیا ہے۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ  مبارک سن کر اس کے شوہر نے فوراً  کہا یہ تو وہی صاحب قریش  معلوم ہوتا ہے  جس کے بارے میں قریش والوں نے  سو (100)  اونٹوں کے انعام  کا  اعلان کر رکھا ہے۔   اگر مجھے موقع ملے تو میں جاؤں گا اور اس کے ہاتھوں پر ایمان لاؤں گا ۔ 

ہجرت کے سفر میں ایک اور دلچسپ واقعہ ہوا۔

بنواسلم قبیلے کے بریدہ نامی  ایک شخص  اپنے گروہ کے ساتھ  سو اونٹوں کے انعام کی لالچ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ،  تعارف ہوا تو اپنا اور اپنے قبیلے کا نام بتایا۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بریدہ سن کر  نیک فال لیتے ہوئے فرمایا: برد امرنا ( ہمارا معاملہ ٹھنڈا ہوگیا)  اور ان کے قبیلے بنو اسلم کا نام سن کر فرمایا: سلمنا ( ہم کو سلامتی نصیب ہوگئی )۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اچھا شگون یعنی نیک فال  لیا کرتے تھے۔  چنانچہ آپ نے ان کے اور ان کے قبیلے کے نام سے نیک فال لیا ۔ نیک فال  یعنی اچھا شگون  اللہ کے ساتھ حسن ظن ہے اور نہ صرف جائز بلکہ سنت ہے۔ اس کے برخلاف برا شگون  لینا حرام اور شرک ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :   «لَا طِيَرَةَ وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ» قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: «الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ»  ) صحيح مسلم / 2223 ) ’’بد شگونی کی کو ئی حقیقت نہیں اور شگون میں سے اچھی نیک فال ہے ۔‘‘ عرض کی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ! فال کیا ہے؟ (وہ شگون سے کس طرح مختلف ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(فال ) نیک کلمہ ہے  جو تم میں سے کوئی شخص سنتا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث میں آپ    صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   «‌لَيْسَ ‌مِنَّا ‌مَنْ ‌تَطَيَّرَ أَوْ تُطُيِّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكُهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، وَمَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»  ( حديث حسن ] ( مسند البزار – 3578[  

"وہ شخص ہم میں سے نہیں، جس نے بدشگونی لی, یا جس کے لیے بدشگونی لی گئی، جس نے کہانت کی یا جس کے لیے کہانت کی گئی, یا جس نے جادو کیا یا جس کے لیے جادو کیا گيا۔ جس نے کوئی گرہ لگائی اور جو کسی کاہن کے پاس گیا اور اس کی بات کو سچ مانا، اس نے اس شریعت کا انکار کیا، جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتاری گئی ہے۔"

بہرکیف بریدہ اسلمی کی ملاقات پر  اللہ کے نبی نے  نیک فال لیا۔ بریدہ کی قسمت میں بھی سعادت لکھی ہوئی تھی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان کو اسلام کی دعوت دی  اور وہ اپنے  پورے قبیلے کے ساتھ مسلمان ہو گئے۔  

ہجرت کے راستے میں زبیر رضی اللہ عنہ  بھی ملے  جو کپڑوں کے تاجر تھے اور اپنی تجارت کے سفر سے واپس آ رہے تھے ۔ انھوں نے  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں کا ہدیہ پیش کیا۔

ہجرت کے واقعہ کا ایک اہم سبق یہ ہے  کہ حق اور باطل کی جب بھی لڑائی ہوگی تو  گرچہ حق اور اہل حق کو مصائب سے دوچار ہونا پڑے لیکن بالآخر حق  ہی کو جیتنا ہے اور باطل ہی کو شکست خوردگی کا سامنا کرنا ہے  جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے : ﵟكَتَبَ ٱللَّهُ لَأَغۡلِبَنَّ أَنَا۠ وَرُسُلِيٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٞ 21 ﵞ [المجادلة: 21]   (اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زور آور اور غالب ہے۔

ہجرت کا ایک سبق یہ بھی ہے  کہ آپ اپنی ذات میں کتنے ہی با اخلاق ہوں لیکن اگر آپ توحید کی دعوت پیش کریں گے تو آپ کو مخالفت اور آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا۔    محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے معاملے میں کفار کو  کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ  آپ کو سچا کہتے تھے۔ امانت دار کہتے تھے  لیکن  ان کی لڑائی تھی دعوت توحید کی وجہ سے تھی۔  آج بھی یہی طریقہ ہے کہ اگر ہم توحید  خالص کی دعوت پیش کرتے ہیں تو ہماری مخالفت کی جاتی ہے  لیکن توحید خالص  کی باتیں چھوڑ کر آپ جو بھی باتیں کریں ، لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اخلاق کی باتیں کریں، حیا داری و بے حیائی کی باتیں کریں۔ نشہ کے خلاف تحریک چلائیں، جہیز کے خلاف باتیں کریں لیکن  توحید کی بات نہ کریں۔  حقیقت یہ ہے کہ توحید اور شرک کی وضاحت ہی ہمارے دین کی بنیاد ہے ، اس سے کسی صورت چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔   سارے نبیوں اور ان کی قوموں کا جھگڑا توحید ہی کی بنا پر تھا۔   اللہ تبارک و تعالی  کا ارشاد ہے : ﵟفَإِنَّهُمۡ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ يَجۡحَدُونَﵞ [الأنعام: 33]   (اے  نبی! یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں )۔

آج مسلمانوں میں بھی جو لوگ  گمراہ ہیں ،  صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں ، وہ اللہ کے نبی کی زلفوں کی تعریف کریں گے، آپ کے چہرے کی تعریف کریں گے،  آپ کے مکھڑے کی تعریف کریں گے لیکن آپ کی جو دعوت تھی توحید خالص کو اپنانے کی اور  شرک سے دوری  اختیار کرنے کی اس کا تذکرہ نہیں کریں گے۔  جب کہ ہمیں سب سے زیادہ  یہی بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

جولوگ اپنی گمراہی کی بنا پر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  ہرجگہ حاضر و ناظر قرار دیتے ہیں ،  ان سے پوچھا جائے کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غار ثور کے لیے نکلے تھے تو اس وقت آپ مکہ میں تھے یا  غار ثور میں تھے یا راستے میں تھے یا ہرجگہ تھے؟ اور جب آپ غار ثور سے  مدینہ کے لیے نکلے تھے تو آپ راستے میں تھے؟ کہ مدینہ میں تھے؟ کہ مکہ میں تھے؟  اور جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو آپ  راستے میں بھی تھے؟ اور غار ثور میں بھی تھے؟ اور مکہ میں بھی تھے ؟کہ صرف مدینہ میں تھے ؟ اور جب آپ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں ٹھہر گئے تو اس وقت آپ مسجد نبوی میں تھے کہ مدینہ کے اور صحابہ کے گھروں میں تھے؟ کہاں تھے؟  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم    اپنی زندگی میں ایک ہی جگہ رہتے تھے۔  ہر جگہ تو حاضر نہیں رہتے تھے۔  کیا دنیا سے چلے جانے کے بعد آپ کو یہ اضافی  مقام  عطا کیا گیا ہے؟ اور اگر عطا کیا گیا ہے تو اس کی دلیل کہاں ہے ؟اور اس کا ثبوت کیا ہے؟

میرے بھائیو! سفر ہجرت کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ بوقت ضرورت کسی غیرمسلم سے خدمت لی جاسکتی ہے۔  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  راستہ بتانے کے لیے ایک کافر سے خدمت لی۔  اگر کسی کام کے لائق کوئی غیر مسلم ہے اور وہ مسلمانوں کی خدمت کر سکتا ہے تو اس سے خدمت لی جاسکتی ہے  بشرطیکہ  وہ سارے انتظامات کر لیے جائیں جس کی وجہ سے وہ کوئی  نقصان نہ پہنچا سکے۔  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کافر  سے خون میں انگلی ڈوبا کے سخت قسم  لی تھی۔  رازوں کی حفاظت  کا عہد لیا  تھا۔ اس کو بھرپور اجرت دی تھی۔  

سفر ہجرت کا ایک قابل ذکر واقعہ  یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دھوپ کی شدت اور تمازت سے بچنے کے لئے ایک ٹیلے کے سایے میں آرام فرما ہوئے۔   ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے چادر بچھائی اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں لیٹ کر  آرام فرمانے لگے۔  اسی وقت ایک غلام اپنی بکریوں سمیت اسی ٹیلہ کی جانب  آتا ہوا نظر آیا۔  وہ بھی ٹیلے سے وہی  کچھ چاہتا تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھی چاہتے تھے۔ یعنی وہ بھی سایہ  کی تلاش میں تھا۔  اس سے پوچھا  گیا: کون ہو؟  اس نے اپنا نام بتایا  پھر پوچھا گیا  کہ تمہاری بکریوں میں کیا  کچھ دودھ ہے؟ اس نے جواب دیا :  ہاں ۔ پھر اس سے  دودھ  دوھنے کی اجازت طلب کی گئی تو اس نے اجازت دے دی۔  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک برتن میں دودھ دوہا۔  پہلے اپنے ہاتھوں  کو صاف کیا ، پھر بکری کا  تھن  جھاڑ کے صاف کیا ،   اس کے بعد دودھ  نکالا۔   دودھ نکالنے کے بعد اس برتن پر پانی ڈالتے گئے ڈالتے گئے یہاں تک کہ دودھ ٹھنڈا ہو جائے۔   دودھ ٹھنڈا ہوجانے  کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پینے کے لئے دیا۔  آپ غور کریں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کس قدر اہتمام کے ساتھ دودھ پلایا۔  صفائی ستھرائی اور دیگر امور کا خیال رکھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کو پیش کیا  اور آپ نے اسے نوش فرمایا  یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔ غور کیجئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دودھ  پی رہے تھے اور اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  خوش ہو رہے تھے۔  اللہ اکبر ،  محبت وفداکاری  کا کیا  عالم تھا !!!۔

مدینہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔  روزانہ مدینہ سے باہر نکل کر آپ کا راستہ دیکھتے  اور انتظار کر کے لوٹ جاتے تھے ۔ ایک دن  ایک یہودی اپنے ٹیلے پر چڑھا اور اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ مدینہ کی سمت  آ رہے ہیں۔  اس کو اندازہ ہو ا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا  اہل مدینہ شدت سے انتظار کررہے ہیں۔  اس نے ٹیلہ کی بلندی سے آواز لگائی۔ مدینہ والو!   یہ رہا تمہارا نصیبہ۔ وہ تشریف لارہے ہیں جن کے تم منتظر تھے۔ یہ سننا تھا کہ مدینہ میں خوشیوں کی ہلچل مچ گئی اور سب دوڑے ہوئے آئے اور ہر طرف نعرہ لگ رہا تھا جاء  رسول اللہ ، جاء  رسول اللہ۔  اللہ کے رسول  تشریف لے آئے۔  اہل مدینہ میں سے ہر ایک کی خواہش تھی  کہ آپ اس کے مہمان بنیں، ہر کوئی درخواست کررہا تھا کہ آپ  میرے گھر تشریف لائیں۔  اور کوئی تو آپ کی اونٹنی کی نکیل تھام کے چاہتا تھا کہ میرے گھر چلیں  لیکن  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اونٹنی کو چھوڑ دو ، اسے حکم مل چکا ہے۔ یہ اونٹنی  اللہ کے حکم سے  چل رہی ہے۔ چنانچہ آپ کی اونٹنی ایک جگہ جاکر  بیٹھی لیکن پھر اٹھی پھر تھوڑی دیر آگے بڑھی اور پھر گھوم پلٹ کے اسی جگہ پہ آ کے بیٹھ گئی۔ یہ دو یتیموں کی زمین تھی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خریدا اور بعد میں یہاں مسجد کی تعمیر فرمائی۔  پھر اپنی بیویوں کے مکانات تعمیر فرمائے ۔ 

میرے بھائیو!  آپ نے ہجرت کا واقعہ پڑھا۔  یہ وہ  ہجرت تھی جو مکہ سے مدینے کے لیے کی گئی تھی۔  اس ہجرت کو تو ہم سب نہیں پا سکے۔ یہ بہت قیمتی چیز تھی اور پتہ نہیں اس وقت ہم ہوتے تو ہمارا کیا حال ہوتا ؟؟  لیکن ایک  ہجرت ابھی  بھی باقی ہے اور وہ قیامت تک باقی رہے گی ، کبھی کبھی ختم نہیں ہوگی۔  مکہ سے مدینہ کی ہجرت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی ختم ہوگئی تھی جب آپ نے مکہ فتح فرمایا تو اعلان کیا :  لا هجرة بعد الفتح .  اب مکہ فتح ہو گیا،  اب مکہ  دارالاسلام ہو گیا،  اب یہاں سے ہجرت  ختم ہو گئی۔  لیکن یاد رہے کہ  ہجرت کی ایک شکل باقی ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :   المُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ » (صحیح بخاری/10)     مہاجر وہ ہے  جو اللہ کی روکی ہوئی چیزوں سے ہجرت کر جائے ۔  یاد رکھئے کہ اللہ کی روکی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر  آپ ہجرت کا اجر وثواب حاصل کرسکتے ہیں۔  اللہ نے شرک سے روکا، شرک چھوڑیے، آپ ہجرت کرنے والے ہیں۔ اللہ نے بدعت سے روکا ، بدعت چھوڑیے ، سنت کی طرف ہجرت کیجیے۔  شرک  چھوڑکر توحید کی طرف ہجرت کیجئے۔  حرام چھوڑ کر حلال کی طرف ہجرت کیجیے۔  باطل چھوڑ کر حق کی طرف ہجرت کیجئے۔  معصیت چھوڑکر اطاعت کی طرف ہجرت کیجیے۔ گناہوں کو چھوڑکر  نیکیوں کی طرف ہجرت کیجئے۔  اللہ کی ناراضگی کے سارے کاموں  کو چھوڑ کر کے اللہ کی رضا کے کاموں کی طرف ہجرت کیجئے۔  یہ وہ ہجرت  ہے جوباقی ہے  اور قیامت تک باقی رہے گی اور اس ہجرت کا ثواب ہم سب پا سکتے ہیں۔  

وآخر دعوانا أن الحمدللہ رب العالمین و صلی اللہ علی نبینا وسلم